Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Tehreer Ki Dunya

Tehreer Ki Dunya

تحریر کی دنیا

زمین پر موجود انسانوں کے اس جنگل میں باشعور لوگ ہی مطالعہ کرتے ہیں اور کتابوں کو عزیز رکھتے ہیں۔ ان میں چند فیصد ہی لکھنے کو شعار بناتے ہیں اور چنیدہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو لکھنے کے فن میں جاں گِھسا دیتے ہیں۔ جو اس فن کو باقاعدہ سینچتے ہیں۔ پھر جب وہ لفظوں کو کاغذ پر باندھتے ہیں تو گویا فسوں پھونک دیتے ہیں اور پڑھنے والا کسی اور دنیا کا مسافر بن جاتا ہے۔ کیسا فسوں انگیز عمل ہے کہ اپنے تجربات، مشاہدات اور فکر کو کتابوں کی صورت میں بند کرکے آنے والے زمانوں کے لیے چھوڑا جائے اور دنیا کے ان خطوں تک پہنچایا جائے جہاں انسان خود نہیں پہنچ سکتا۔ لکھنا، دراصل اپنے زمانے میں شناخت اور آنے والے زمانوں میں زندہ رہنے کی خواہش ہے۔

عرصے تک جن قوموں اور ملکوں نے حکومتیں کی ہیں انہوں نے علم کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور تلوار کے ساتھ قلم کو طاقت کا وسیلہ بنایا۔ مسلمان کبھی دنیا کے غالب حصے پر حکومت کرتے تھے، ان کی تہذیب نے ایک عالَم کو مسخر کیا تھا تو اسی عمل کے باعث۔ کتابیں پڑھی اور لکھی جاتی تھیں۔ اپنے اپنے فن کے ماہرین قلم تھامے ہوئے تھے۔ آج مغرب آگے ہے تو اس کا یہی رویہ ہے۔ کبھی ذرا معلوم کر لیا جائے کہ وہاں کتنی کتابیں لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ وہاں لکھنے والے محض قلم کے بل پر امیر ہو جاتے ہیں۔ وہاں لکھاری ایک سماجی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں کتاب مالی لحاظ سے گھاٹے کا سودا شمار کیا جاتا ہے۔

قلم کار عوام میں کیوں خاص ہو جاتا ہے؟ انسان کے پاس دیگر جانداروں کے مقابلے میں زبان دانی کی صلاحیت ہے۔ وہ خیال کو لفظوں کی صورت میں ڈھال سکتا ہے۔ پھر ان لفظوں کو لکھ سکتا ہے۔ اچھی تحریر اس اس صلاحیت کا درجہ کمال ہے۔ جو ایک انسان کو ممتاز کر دیتا ہے۔ قلم میں وہ طاقت ہے کہ اس کے بل پر ٹاٹ نشیں اہل قلم بادشاہوں سے ٹکرا گئے۔ قلم کے زور پہ معاشرے بدلے اور انقلابات آئے۔ ایک فقیر منش شخص کارل مارکس تو قلم کے سہارے پورے نظام سے ٹکرا گیا۔ تحریروں کے اثرات درخت کے جڑوں کی مانند معاشرے کی زمین کے اندر ہی اندر پھیلتے رہتے ہیں یا ایسے جیسے پانی دراڑوں میں سرایت کرتا ہے۔

مذہب، سائنس، فلسفہ، ادب، شاعری ہر علم و فن کے پھیلاؤ کا ذریعہ تحریر ہی ہے۔ ابن سینا، الرازی، جابر بن حیان، فارابی، ابن الہیثم کتابیں اور تحریریں نہ چھوڑ جاتے تو آج کس کو معلوم ہوتا کہ اس پائے کے ماہرین بھی کبھی مسلمانوں میں موجود تھے۔ کتنے ہی نامور بادشاہ، شہزادے اور امراء تاریخ میں محض تذکرے کے طور پر زندہ رہ گئے مگر لکھنے والوں کے اثرات آج بھی معاشروں پر موجود ہیں۔ شیکسپیئر ہو یا اقبال، میر ہو کہ غالب، نطشے ہو یا علی شریعتی، آج تک زمانے میں ان کی چھاپ سنائی دے رہی ہے۔ قلم کی کاٹ وہاں تک جاتی ہے جہاں تلوار کو پہنچنے میں بھی صدیاں لگتی ہیں۔

اچھا لکھاری کیسے بنا جائے؟ تحریر کو تاثیر کہاں سے ملتی ہے؟ اور لکھاری جاویداں کیسے ہوتا ہے؟ اچھا لکھنا اچھا مطالعے اور مسلسل ریاضت سے آتا ہے۔ بغیر مطالعے کے لکھنے والا اس خالی برتن کی مانند ہو جاتا ہے جو بجانے سے شور کرتا ہے مگر اندر سے خالی ہوتا ہے۔ مطالعہ خیالات کو روانی اور زبان دانی کی صلاحیت بہتر کرتا ہے۔ تخیل کو وسیع اور الفاظ کو جوڑنے اور پرونے کا ہنر سکھاتا ہے۔

اخلاص دوسری شرط ہے۔ لکھنے والا خلوص سے خالی ہو تو اس کے خوبصورت الفاظ بھی بس کچھ وقت کے لیے چمکتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی روشنی مدھم ہوتی جاتی ہے۔ یہ خلوص ہوتا ہے جو لکھاری کو جاویداں کر دیتا ہے۔ یہ سوزِ جگر ہوتا ہے جو الفاظ میں تاثیر ڈالتا ہے۔ دنیا کے چہرے پر جاویداں تمام اہل قلم کو اگر دیکھیں تو ان کو ان کے اخلاص اور درد نے زندہ رکھا۔ ان کے نظریات قبول کیے جاتے ہیں یا اختلاف کیا جاتا ہے مگر ان کا خلوص ہوتا ہے جو ان کے عشاق پیدا کر دیتا ہے۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی احترام کرتے ہیں۔ یہ کارل مارکس کی عمل کی سچائی تھی کہ اس سے بعد المشرقین مختلف عقیدہ رکھنے والا اقبال اس کے بارے میں کہتا ہے کہ:

آں کلیمِ بے تجلّی آں مسیحِ بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب

مسلسل ریاضت تیسری شرط ہے۔ لکھنے کا فن پہلے روز نہیں نکھرتا۔ الفاظ اپنے اسرار اتنا جلد منکشف نہیں کرتے۔ وہ اپنے وجود کے پردے درجہ بہ درجہ ہٹاتے ہیں۔ اپنے تہہ در تہہ معانی دھیرے دھیرے کھولتے ہیں۔ لکھنے کی صلاحیت خداداد بھی ہو تو اس کو خون جگر سے نکھارنا پڑتا ہے۔

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

تحریر کی خوبیاں و خامیاں، زباں کے قواعد، تراکیب، نزاکتیں، تشبیہات اور استعارات تمام مسلسل ریاضت سے آتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی پوچھتا ہے کہ اچھا لکھاری کیسے بنا جائے، تو جواب سادہ سا ہے۔ خوب پڑھو، پھر لکھو، روز لکھو، مسلسل لکھو اور مسلسل پڑھو۔ ایک دن تحریر خود اچھا ہونے کی گواہی دے گی۔

بنجمن فرینکلن کے بقول "کچھ ایسا لکھو کہ پڑھے جانے کے مول ہو یا کچھ ایسا کرو کہ لکھے جانے کے مول ہو"۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat