Mustaqbil Hame Kyun Darata Hai? (1)
مستقبل ہمیں کیوں ڈراتا ہے؟ (1)
ہمیشہ سے انسانی ذہن نامعلوم چیزوں کے خوف میں مبتلا رہا ہے۔ انسان جس شے کے بارے میں نہیں جانتا اس کے اسرار اسے خوف زدہ کر دیتے ہیں۔ مختلف زمانوں میں لوگ سورج، ستاروں، آگ، درخت، دیو مالائی کرداروں اور عظیم الجثہ حیوانات کے سامنے سر بسجود اس لیے بھی رہے ہیں کہ ان کے اسرار اور طاقت کے ماخذ سے واقف نہ تھے۔ انسان نے اس وسیع کائنات کے مظاہر اور عناصر کے سامنے اپنے آپ کو کمزور سمجھا اور جہاں اس کے مقابل ذرا آسرا نظر آیا اس کا دامن تھام لیا، اس کے آگے جھک گیا۔
مستقبل بھی اسرار کے دھند میں لپٹی، نامعلوم کے پردے میں نہاں اور انتہائی غیر یقینی نظر آنے والی شے ہے۔ موت، بیماریاں، مفلسی، جنگیں، آفات اور دیگر مصائب انسان اپنی تمام تاریخ میں جھیلتا رہا ہے اور ان کا خوف انسانی معاشرے کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسری جانب، روزمرہ زندگی میں بے شمار المیے اور حادثے رونما ہو کر ہمارے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔ مستقبل کی نامعلومیت اور ان نقوش کے سایوں کا جب ذہن کے پردے پر ملاپ ہوتا ہے تو انسانی ذہن اس خوف کو کئی گنا بڑا کر دیتا ہے۔
آج جو غم زدہ ہے اور جو خوش ہے، جو مفلس ہے اور جو امیر ہے، ہر ایک جاننا چاہتا ہے مستقبل میں اس کے ساتھ کیا پیش آئے گا، وہ کیا کھوئے اور کیا پائے گا؟ وقت کی ٹکسال میں اس کے لیے کون سے سکّے ڈھلیں گے۔ آنے والے وقت سے عموماً لوگ دو چیزیں وابستہ کرتے ہیں، خوف یا امید۔ اور عموماً خوف، امید سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ انسان تقدیر کو بھی مستقبل کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ جو ہو چکا، اچھا یا برا، انسان اسے گزار چکا ہوتا ہے، مگر جو ہونا ہے، وہ اسے بے چین کیے رکھتا ہے۔
تقدیر یا قسمت مختلف دیدہ و نادیدہ، قابل و ناقابل ادراک عناصر کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ ایک پیچیدہ قسم کا میکنزم ہے جس میں مختلف پرزے یا عناصر ایک ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں اور ہر لمحے کوئی نتیجہ پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا تقدیر کے اس میکنزم کا ایک بڑا حصہ ہر آن متحرک ہے۔ ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ کون سا لمحہ اپنے جلو میں کیا لے کر آئے؟
ایسا کیا پیش آئے جو ہمارے گمان کی حدوں سے باہر ہو یا کم از کم ہماری بصیرت و بصارت سے اوجھل ہو۔ شاید ہمیں جاننے کی ضرورت بھی نہ ہو کیونکہ پھر اس کو تبدیل کرنے کے لیے ہمیں کامل قدرت بھی درکار ہو گی اور اگر ہر انسان کو مکمل قدرت عطا کر دی جائے تو شاید انسانی زندگی اس زمین پر ایک دن بھی مکمل نہ کر پائے۔ ہماری اپنی محدودات ہیں اور اس نظامِ کائنات کے اپنے تقاضے۔
تقدیر کا یہ کھیل دیگر حیوانات کے مقابلے میں انسان کے لیے اور پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ انسان کی تقدیر کی کئی جہتوں کی بُنت معاشرے میں ہوتی ہے۔ انسانوں کے باہمی اعمال و تعلقات فرد کی شخصیت، کردار اور حالات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تقدیر گویا ایک مثلث کی مانند ہے جس کے ایک سرے پر قدرت، دوسرے پر انسان انفرادی حیثیت میں اور تیسرے سرے پر معاشرہ ہوتا ہے۔
مستقبل میں جھانکنے اور تقدیر جاننے کی خواہش نے انسان کو کہاں کہاں خوار نہ کرایا۔ ستاروں، سیاروں، ہاتھ کی لکیروں، فالوں، زائچوں ہر شے کا جہاں سے اسے کچھ امید ہوئی، اس نے سہارا لیا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جو لوگ ان چیزوں میں پھنس جاتے ہیں وہ مستقل پریشاں اور سرگرداں رہتے ہیں۔ بنیادی وجہ ہے کہ ان کا فوکس تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ انسان کے اختیار میں موجود اسباب یعنی علم، دانائی اور جدوجہد سے زندگی کو سنوارنے کے بجائے ان مظاہر کے سہاروں اور بعید از عقل اسراروں میں الجھے رہتے ہیں۔ یوں وہ زندگی کو اپنے لیے ایک لاینحل معمہ بنا لیتے ہیں۔
اس سے قطع نظر کہ انسانی تقدیر بارے یہ علوم کتنے مستند ہیں، پامسٹری کا شہنشاہ کیرو بھی انسانی کوشش کو تقدیر بدلنے کے معاملے میں تسلیم کرتا تھا۔ اس کے مطابق ذہنی رجحانات اور ان رجحانات کے مطابق کوشش ہمارے ہاتھوں کی لکیروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یوں ہماری تقدیر طے کرتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو جدید سیلف ڈویلپمنٹ کے ماہرین کے ہاتھ آ گیا ہے۔ جس کا وہ رات دن پرچار کرتے ہیں۔ اسی کی تعبیر لاء آف اٹریکشن سے کی جاتی ہے۔ جو تم سوچو، جو تم سچے دل سے طلب کرو، جس کے لیے کوشش کرو۔
ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
حضرت علیؑ سے پوچھا گیا کہ تقدیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک پیر اوپر اٹھا کر ایک پیر پر کھڑے ہو جاؤ۔ وہ ایک پیر پر کھڑا ہوا تو آپ نے کہا دوسرا پیر بھی اٹھا لو۔ اس نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، اس طرح تو میں گر جاؤں گا۔ آپ نے کہا کہ بس یہی تقدیر ہے۔ قسمت کا لکھا اور اپنی تقدیر خود بنانے کے فلسفوں کا کل نچوڑ یہی ہے کہ کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے اور کچھ ہمارے بس سے باہر۔ کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہے اور کچھ پوشیدہ۔ اور کچھ ایسا جو کئی تہوں، کئی پردوں میں۔
پھر ایک سوال اس ازل کے کمزور انسان کے ذہن میں آتا ہے کہ پھر اس تقدیر کے اسرار اور مسقبل کی غیر یقینی کے مقابل انسان کے پاس کیا ہے؟ کوئی آسرا، کوئی سہارا؟ ایک خوف ہے جو وسیع دنیا میں شعور کے ساتھ پائے جانے والے اب تک کے معلوم اس واحد جاندار کو گھیر لیتا ہے۔ (جاری)