Motivation Aur Kamyabi Ka Nazariya
موٹیویشن اور کامیابی کا نظریہ
زندگی اپنی فطرت میں ایک عجیب قسم کا تضاد اور کشمکش رکھتی ہے۔ ایک طرف سے دیکھیں تو سادہ نظر آتی ہے، دوسری طرف سے پیچیدہ۔ اسکے ایک رخ پر جھلملاتی روشنیاں ہیں تو دوسرے پر دور تک بھٹکتی ہوئی تاریک بھول بھلیاں۔ زندگی اپنے ساتھ سوالات پیدا کرتی ہے۔ انسان کو ان سوالوں کے جوابات کی ہمیشہ سے جستجو رہی ہے۔ آج کا انسان شعور اور ترقی دونوں کی بلندی پر ہے۔ زندگی کی کثیر الجہتی سے مگر اس کی آزمائش میں اضافہ ہو چکا ہے۔
اِس دور میں چمک دمک اتنی بڑھ گئی ہے کہ آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ دوڑ ایسی لگی ہے کہ پیچھے کوئی نہیں رہنا چاہتا۔ کامیابی کی شدید طلب نے ناکامی کو ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے مگر یہ زندگی کی فطرت ہے کہ یہاں لوگوں کی روشنی ماند بھی پڑتی ہے۔ لوگ جل کر بجھتے بھی ہیں۔ پیچھے بھی رہتے ہیں، گرتے بھی ہیں اور ناکام بھی ہوتے ہیں۔ زندگی ہر حال میں تغیر پذیر ہے۔ ہمارا ارد گرد ہر لمحے بدل رہا ہے۔ ہماری بیرونی دنیا کے تغیرات ہماری اندرونی ذات میں تغیر پیدا کرتے ہیں۔ یہ تغیرات ہماری ذات کو الٹتے پلٹتے ہیں۔
یہ دور آگہی کا دور ہے۔ انسانی شخصیت، رویوں اور معاشرت کی نئی گھتیاں سلجھ رہی ہیں۔ خود سازی و تعمیر شخصیت جو پہلے روحانی پہلوؤں تک محدود تھی، باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ تاہم مسلمہ اصول ہے کہ اونچائی بڑھتی ہے تو اس کے ساتھ گہرائی بھی اتنی ہی بڑھتی ہے۔ اس دور کی الفتیں اپنی ہیں اور امتحان بھی اپنے۔ معلومات کا سیلاب ہمارے سروں پر سے بہہ رہا ہے۔ آگہی سب سے بڑا امتحان ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جس کو روشنی کے لیے استعمال نہ کیا جائے تو تھامنے والے ہاتھ کو ہی جلا ڈالتا ہے۔
جو لوگ گرتے ہیں، پیچھے رہ جاتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں، انہیں ضرورت ہوتی ہے کسی ہمدردی و تشفی کی، کسی ہمت اور حوصلے کی۔ کوئی محرک جو انہیں زندگی سے جوڑے رکھے۔ کوئی ترغیب جو انہیں ٹوٹے دل کے ساتھ ہی سہی، رستے پر قائم رکھے۔ کوئی تحریک جو ان کی آنکھوں کو خواب دیکھنے کا شوق عطا کرے۔ جو تیز ہواؤں میں ان کی آرزوؤں کے دیے جلائے رکھے۔ انسان کے جذبے کو مہمیز کرنے، باہر سے ان کی حوصلہ افزائی کرنے، انہیں ترغیب و تحریک دینے اِس دور میں موٹیویشنل اسپیکرز ابھرے۔
موٹیویشنل اسپیکرز نے تحریک و ترغیب کو باقاعدہ فن بنا دیا۔ کوئی بھی فن جب عوامی ہو جائے تو جہاں فائدہ ہوتا ہے وہاں کچھ نقصان بھی کہ وہ جنس بازار بن جاتا ہے۔ بہت سے ناقابل لوگ بھی اس میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو عطائی ڈاکٹر تک وجود رکھتے ہیں۔ کسی کو اس فن سے فائدہ ہوتا ہے اور کسی کو نہیں ہوتا۔ یوں ان کی ایک رائے بن جاتی ہے۔ مختلف آراء کے بنیاد پر مختلف گروپ بن جاتے ہیں۔ "تاریکی میں روشنی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے" کی مثل اگر ایک بڑی تعداد کو کتابوں، لیکچرز، تقریروں سے موٹیویشن کی ضرورت ہو تو اس سے مراد معاشرے میں حوصلہ شکن عوامل زیادہ ہیں۔
ازل سے راسخ آفاقی اصول ہے کہ کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی مدد خود نہ کرنا چاہے۔ کوئی تقریر، تحریر اور ترغیب فائدہ نہیں دے سکتی جب تک اس پر عمل پیرا نہ ہوا جائے۔ میدان جنگ میں سپاہی کو عملی طور پر لڑنا پڑتا ہے محض تحریک کی بنیاد پر جنگ نہیں لڑی اور جیتی جاتی۔ تحریک تو جنگ کی تیاری کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ تحریک یا ترغیب جذبہ ابھارنے کا کام کرتی ہے اور جذبات گھٹتے اور بڑھتے رہتے ہیں۔
سمندر کی کوئی لہر جب اچانک چڑھ کر ساحل کی طرف جاتی ہے تو لگتا ہے کہ سب کچھ بہا لے جائے گی، مگر کچھ دور جا کر اس کی شدت کم ہو جاتی ہے اور پھر وہ سر رکھ دیتی ہے۔ جب کہ سمندر کے طوفانوں کے پیچھے ایک مسلسل عمل، ایک پورا نظام کارفرما ہوتا ہے۔ کامیابی ایک طویل، مستقل عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عرف عام میں جس کو ڈسپلن کہتے ہیں۔
موٹیویشنل اسپیکرز، کامیابی کے گرو کامیابی کے لیے ہر درد سے گزرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تمام مخالفتوں، رکاوٹوں اور حوصلہ شکن رویوں کو عبور کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ انفرادی کامیابی کا نظریہ ہے، جب راہ میں رکاوٹیں ہوں تو اس کے سوا چارہ بھی نہیں مگر کامیابی کا ایک سادہ نظریہ یہ ہے کہ دوسروں کے لیے رکاوٹیں اور مخالفتیں کھڑی نہ کریں تا کہ ایک کو دوسرے کی قائم کی گئیں رکاوٹیں عبور کرنے کی تکلیف سے گزرنا ہی نہ پڑے۔
ایک معاشرہ جو دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے رویوں پر مشتمل ہو نہ کہ خود غرضی اور مخالفت پر، تمام افراد کی کامیابی کا سب سے آسان طریقہ ہے۔