Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Masabqat Aur Tasadum

Masabqat Aur Tasadum

مسابقت اور تصادم

انسان اس زمین پر ہزاروں برس سے موجود ہے۔ اپنی تمام تر حیوانی جبلتوں اور انسانی امتیازات کے ساتھ۔ ان جبلتوں میں سے ایک بقا کی جبلت ہے۔ ارد گرد کے بے رحم ماحول میں بقا کا وحشت ناک جذبہ جو اپنے آپ کو قائم رکھنے کےلیے دوسروں کو کچل دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس جبلت سے ہی تصادم کا عنصر پھوٹتا ہے۔

جب انسان نے معاشرے میں شعور کے ساتھ رہنے کا آغاز کیا تو ان کے درمیان تعاون کے ساتھ مسابقت نے بھی جنم لیا۔ دوسرے انسانوں میں نمایاں ہونے، امتیاز حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ۔ گویا تصادم حیوانی جبلت ہے اور مسابقت شعور کی خاصیت۔ کہا جاسکتا ہے کہ مسابقت، تصادم کی ریفائن شکل ہے یا تصادم، مسابقت کی خام صورت۔ مگر تمام تر شعور کے باوجود تصادم کا عنصر انسانی معاشرے سے ختم نہیں ہوا۔ حیوانی جبلتیں شکلیں بدلتی ہیں، مگر ختم نہیں ہوتیں۔

آج بھی انسان کو اپنی بقا کو حقیقی یا غیر حقیقی خطرے کا اندیشہ لاحق ہوجائے تو وہ تصادم پر اتر آتا ہے۔ امریکہ نے عراق کے پاس "بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار" موجود ہونے کے جھوٹے دعوے کے ساتھ خطرے کا احساس دلاکر اتحادیوں کو عراق پر حملے میں ساتھ شامل کیا۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے امریکہ اور شمالی کوریا کی حکومتوں کے باعث ان کے عوام ایک دوسرے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی حال دنیا کے دیگر کئی ملکوں کا ہے جو مسلسل حالت تصادم میں ہیں۔ فرقہ پرست اور قوم پرست گروہوں میں لوگوں کو ان کی بقا کو سچا یا جھوٹا خطرہ لاحق ہونے کا احساس دلاکر ہی دوسرے گروہوں سے حالتِ تصادم میں رکھا جاتا ہے۔

سیاست معاشرے میں تصادم یا مسابقت دونوں صورتوں میں موجود ہوتی ہے۔ متمدن اور قانون کی بالادستی کے حامل معاشروں میں مسابقت اور جیسا معاشرہ ہمارا ہے اس میں تصادم کی صورت میں۔ جہاں فریقین ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیے سب کچھ داؤ پہ لگاچکے ہیں۔ مگر تصادم کی یہ صورت مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں کئی فریقین شامل ہوچکے ہیں۔

کارپوریٹ کلچر یوں تو مسابقت کی دنیا ہے مگر ٹانگیں کھینچنے، سازشیں کرنا اور دوسرے کو نقصان پہنچانا مسابقت کی لکیر پار کرکے تصادم کی جانب جانا ہے۔ تصادم اور مسابقت کے درمیان فرق کی لکیر ان کا طریقہ کار ہے۔ تصادم میں ایک فرد یا گروہ دوسرے کی تباہی چاہتا ہے اور یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک ایک فریق مکمل تباہ نہ ہوجائے یا گھٹنوں پر گِر کر مصالحت نہ کرلے یا پھر دونوں ہی فریق اپنی بقا قائم رکھنے کے لیے مفاہمت پر مجبور نہ ہوجائیں جب کہ مسابقت میں انسان کی کوشش اپنی جیت کی ہوتی ہے دوسروں کی شکست کی نہیں۔ معاشرے اور فرد کی ترقی مثبت مسابقت سے ممکن ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کوشش انسانی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہے اور معاشرتی ترقی کا پہیہ حرکت کرتا ہے۔

تصادم عدم تحفظ سے جنم لیتا ہے۔ عدم تحفظ خوف سے۔ خوف غیر یقینی سے۔ انفرادی طور پر انسان اپنی بقا میں ناکامی محسوس کرے تو گروہ میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ دوسروں پر غلبے کی خواہش بھی تصادم پیدا کرتی ہے۔ اس کی بنیاد میں بھی وہی بقا کی جبلت ہوتی ہے۔ جب غلبے کے بغیر بقا قائم رکھنا مشکل سمجھا جائے۔ فرد یا گروہ جب دوسرے کا وجود دل سے تسلیم کرلے تو اسے اس پر غلبہ پانے خواہش نہیں رہتی۔

اس زمین پہ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو ان چیزوں سے بالکل بے نیاز رہتے ہیں۔ ان کی مسابقت اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ ہر روز پہلے سے بہتر ہونے کا ہدف۔ جدید تعمیر شخصیت کے فن میں اسی کا پرچار ہے۔ اس کا مقصد زاویہ نظر تبدیل کرنا ہے۔ انسان باہر سے نگاہ ہٹاکر اپنے اندر نگاہ کرے۔

یہ ایک ایسی دنیا کی تشکیل کا خواب ہے جس میں مادی اور معنوی ترقی ایک دوسرے سے مربوط ہوجائیں۔ انسان کے پاس ظاہری چمک دمک بھی ہو اور اطمینان قلب بھی۔ دولت بھی ہو اور برتنے کا سلیقہ بھی۔ ترقی ٹیکنالوجی کی بھی ہو اور اقدار کی بھی۔

رونقِ دنیا بھی باقی رہے اور درد دل بھی۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat