Lafz Aur Lafz Gar (1)
لفظ اور لفظ گَر (1)
ترکی کا نوبل اانعام یافتہ ادیب اورہان پامُک لکھتا ہے "میرے نزدیک ادیب انسان کے اندر پوشیدہ دوسرا شخص ہے جسے دریافت کرنے اور وجود میں لانے کےلیے اسے برسوں صبر کے ساتھ محنت کرنی پڑتی ہے"۔ بطور ادیب پامُک خود کو گنبد یا پُل کی تعمیر کرنے والا تصور کرتا ہے کہ "ہم ادیب جو پتھر استعمال کرتے ہیں وہ لفظ ہیں۔ ہم الفاظ کو پتھروں کی مانند ہاتھوں میں تھامے دیکھتے ہیں کہ کیسے ایک لفظ دوسرے لفظ سے جڑ سکتا ہے۔ کبھی انھیں دور سے دیکھتے ہیں اور کبھی بہت قریب سے۔ محبت سے انھیں انگلیوں یا قلم کی نوک سے چھوتے ہیں۔ انھیں تولتے، آگے پیچھے کرتے برسوں پر محیط صبر اور امید کے ساتھ نئی دنیاؤں کی تخلیق کرتے ہیں"۔
پامُک نے اس خوبی اور اختصار کے ساتھ ادیب کی تمام مشقت اور پوری کیفیات بیان کردی ہیں کہ "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"۔ لکھنا ایک جاں گسل اور بعض اوقات انتہائی حد تک الجھا دینے والا بوریت زدہ کام ہو جاتا ہے۔ کبھی انتہائی بےکیفی چھا جاتی ہے، کبھی بے چینی گرفت میں لے لیتی ہے اور کبھی ایسا جمود چھا جاتا ہے کہ لکھنا والا خود سے سوال کرتا ہے کہ آیا میں لکھ سکتا بھی ہوں یا فقط سارے بہلاوے ہیں؟ یہاں سے صبر اور مستقل مزاجی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
قلم تھامنے والے میں اتنی برداشت اور اتنا تحمل ہونا چاہیے جتنا نو ماہ شکم میں بچہ رکھنے والی ماں رکھتی ہے۔ یہ بَلِحاظِ شدت ہے۔ وقت کے لحاظ سے تو ایک اعلی فن پارہ اس سے کئی گنا زیادہ وقت بھی لیتا ہے۔ جلدی اس کو ضائع کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔ یہی کچھ نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ نے کہا تھا کہ لکھنے والے کو لامحدود صبر و تحمل کا حامل ہونا چاہیے۔ گارشیا مارکیز کے مطابق اس کا شاہکار ناول "تنہائی کے سو سال" پندرہ سولہ سال تک اس کے ذہن میں پکتا رہا اور پھر کوئی اٹھارہ ماہ کمرہ بند ہوکر مسلسل ٹائپ رائٹر پر رقم کرتا رہا۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمو
اقبال کا اپنا کلام بھی خون جگر سے نمو پایا ہے۔ کمالِ فن کا نمونہ، فکری مشقت سے صیقل، عشق و علم کا امتزاج، لفظوں کا ایک نالۂِ بلند۔
ٹی ایس ایلیٹ نے راہِ ادب میں قدم دھرنے کا ارادہ رکھنے والی طالبہ کو مشورہ دیا تھا "سب سے پہلے تم دوسروں کےلیے نہیں، اپنے لیے لکھو"۔ زندہ بھی وہی تخلیق کار رہ سکتا ہے جو برسوں تک دوسروں سے بے نیاز، شائع ہونے، منظرِ عام پر آنے سے بھی بے غرض، بے کیف روز و شب اور مخالف موسموں سے لاپروا اپنےلیے لکھ سکتا ہو۔ مارکیز کا کہنا تھا کہ میں نے چالیس سال کی عمر تک ایک سینٹ کی رائلٹی بھی ادب سے نہیں کمائی۔ مارکیز اس وقت صحافت کی تنخواہ سے گزر بسر کرتا تھا۔ جیسا کہ ہنری ملر نے کہا تھا کہ لکھنا اپنا انعام خود ہے۔ یہ انعام وہ اندرونی اطمینان ہے جو لکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔
جوئے ولیمز نے کہا تھا "ایک قلم کار اندھیرے سے محبت کرتا ہے مگر روشنی میں گھومتا ہے"۔ ادیب ایسا ہی ہوتا ہے۔ اندھیرے میں روشنی کی تلاش کرتا ہے۔ جلی ہوئی بستیوں کی راکھ پر بیٹھ کر ان کی نوحہ گری کے ساتھ بہار کے آنے والے زمانوں کےلیے نغمے تخلیق کرتا ہے اور اگر اس کے برعکس ہو تو خوشیوں میں بھی غموں کی چھاپ سنتا ہے۔ لکھنے والا زندگی کو جامد نہیں، متغیر حالت میں دیکھتا ہے۔
اپنے کام کے بارے میں حساس ایک لکھنے والے کا چند سوالات سے لازمی سامنا ہوتا ہے: میں کیا لکھ رہا ہوں، کیوں لکھ رہا ہوں اور کس کےلیے لکھ رہا ہوں؟
ان سوالات کے جوابات کی تلاش ہی قلم کار کی راہیں اور سمت متعین کرتی ہے۔ یہ محض قلم کی نہیں، بلکہ اپنی ذات کی شناخت کا سفر بھی ہوتا ہے۔ اس دوران وہ لکھنے سے اکتا بھی جاتا ہے، بد دل ہو جاتا ہے۔ ان جوابات کا حصول ہی قلم کار کو اس اندرونی اطمینان سے ہمکنار کرتا ہے جس کی اسے آرزو ہوتی ہے اور جو اس عمل کا خاصہ ہے۔
انسان کے دل میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش ہے۔ نمائشِ ذات اور اظہارِ خیال کی خواہشات بھی فطری ہیں۔ ان فطری تقاضوں کی ساتھ جب صلاحیت، رجحان اور ریاضت شامل ہو تو قلم کار کا وجود بنتا ہے۔ نتالی گولڈ برگ کا کہنا تھا "ادیب دو بار جیتا ہے"۔ شاید کئی بار۔ اور کئی مختلف زمانوں اور دنیاؤں میں رہتا ہے۔ کیٹس پچیس برس کی عمر میں مرگیا مگر اس کی نظمیں زندہ رہ گئیں۔
"کچھ ایسا لکھو کہ پڑھے جانے کے مول ہو یا کچھ ایسا کرو کہ لکھے جانے کے قابل ہو"۔ (بنجمن فرینکلن)