Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Lafz Aur Lafz Gar (2)

Lafz Aur Lafz Gar (2)

لفظ اور لفظ گَر (2)

لکھو، یہاں تک کہ تمہارے قلم کی سیاہی خشک ہو جائے اور پھر اپنے آنسوؤں سے اسے دوبارہ تر کر دو، اور چند احساسات کی ایک قطار تشکیل دو، شاید کہ پھر اسے دیانت حاصل ہو۔ (شیکسپیئر)

لکھو یہاں تک تمہارے آنسو بہنے لگیں اور پھر دوبارہ خشک ہو جائیں۔ لکھو یہاں تک کہ دل میں درد کی لہر اٹھے اور پھر سے تھم جائے۔ لکھو یہاں تک کہ گہری سیاہ راتیں صبحوں میں بدل جائیں اور خزائیں بہاروں سے جا ملیں۔ لکھو یہاں تک کہ اپنی ذات کو فراموش کر بیٹھو اور لکھو یہاں تک کہ اپنا عرفان حاصل کر لو۔ لکھو یہاں تک کہ کائنات تمہارے گرد طواف کرنے لگے اور لکھو یہاں تک کہ تم پر لکھا جائے۔

لفظوں کو جوڑنا، کاغذ پر جوڑنا، اس طرح کہ زمانوں کے لیے امر ہو جائیں، نسلیں آ کر پڑھیں اور نام یاد رکھیں۔ اس طرح برتنا کہ ذہنوں کو تبدیل کر دیں، بے شمار لوگوں کی خواہش ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لفظوں سے عشق کر لیتے ہیں۔ اورہان پاموک کے بقول کسی معمار کی طرح برسوں کے صبر اور ریاضت سے، محبت کے ساتھ انھیں جوڑنا سیکھتے ہیں۔

لفظ گر بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ فکشن نویس ہوتے ہیں جو تخیل کی بستیاں آباد کرتے ہیں اور حقیقت اور تخیل کی دنیاؤں کو آپس میں ایسے ملا دیتے ہیں کہ دونوں کے رنگ ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ جنھوں نے تاریخ کو کہانیوں میں محفوظ کیا ہوتا ہے۔ جو اپنے سماج کے رنگوں کو قصوں کی صورت بیان کرتے ہیں اور کبھی محض انسان کے حیران کُن تخیل کی آبیاری اور صورت گری کرتے ہیں۔

تاریخ نویس جو مختلف زمانوں میں سفر کرتے ہیں۔ جو ہمارے حال اور ماضی کے درمیان رشتہ ہوتے ہیں۔ ماضی کے کھنڈرات میں عظیم الشان محلات ڈھونڈتے اور حال کے آئینے میں مستقبل کو دیکھتے ہیں۔ جو گزر جانے والے کرداروں کے ساتھ ایک عمر گزار آتے ہیں۔

شاعر، جو خیال آفرینی کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ وہ خیال کو ردھم میں باندھتے اور لفظوں کی موسیقی پیدا کرتے ہیں۔ شاعر کا دشت خیال کتنا ہی وسیع ہو مگر اس کے تصور کے دو بنیادی محرکات ہوتے ہیں۔ حُسن یا اُداسی۔ مشرق کے شاعر تو زلف و چشم، لب و رخسار اور قامت و چال پر ایسے فدا ہوئے کہ ان کے نئے نئے زاویے دریافت کرتے ہیں۔ حافظ شیرازی ہی محبوب کے خال پر ثمرقند و بخارا قربان کرنے کی بات کہہ سکتا ہے، امیر تیمور تو اس سلطنت کے لیے اپنا خون دینے اور دوسروں کی لاشوں کا ڈھیر لگانے سے گریز نہیں کرتا۔

مگر یہ شاعر ہی ہوتے ہیں جو جنگجوؤں پر نظمیں رقم کر کے انھیں عوام میں امر کر دیتے ہیں۔ کسی شاعر کو اُس جنگجو سے سب سے زیادہ ہمدردی ہوتی ہے جو اپنی محبوبہ کو پیچھے چھوڑ آیا ہوتا ہے۔ غم کو فینٹسی بنانا بھی شاعر کا ہی خاصّہ ہے۔ مگر ایک شاعر جب اپنے فن کے کمال پر ہو اور حقیقت بیان کرنا چاہے تو اوراق پر پھیلے حقائق کو دو مصرعوں میں ڈھال دیتا ہے اور کتابوں کے مضمون کو ایک نظم میں سمیٹ دیتا ہے۔ ذرا میر کا یہ شعر دیکھیے۔

میر صاحب زمانہ نازک ہے

دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار

ادب کا لطف اور چاشنی اپنی جگہ، ذرا سا تجسّس رکھنے والا ذہن اس شعر کے توسط سے اس دور کے معاشرتی ماحول اور تاریخ دونوں کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ سچ کہیں تو آج ہم پر بھی صادق آتا ہے۔ ذرا غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

زندگی کے روز و شب میں حالات، عقیدے اور عمل کے سنگم میں انسان کے اندر برپا ہونے والی کشمکش کو کس خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ انسان کی ایک اور کیفیت کو غالب اس طرح بیان کرتا ہے۔ کتنا اختصار اور کیا کمال۔

پہلے آتی تھی حالِ دل پر ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

باہر کوئی بھی موسم ہو ایک لکھنے والے کی کھڑکی پر سارے موسم آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کو اپنی تحریر کے لیے جس موسم کے رنگ درکار ہوتے ہیں وہ رنگ اپنے گرد بکھیر دیتا ہے اور وہ موسم اس کے اندر بھی جاگزیں ہو جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ مسلسل ایک ہی موسم سے گزرتا ہے۔ قلم کار جب تک اپنی روح لفظوں کے حوالے نہیں کرتا اس وقت تک لفظ اپنی روح اس کے حوالے نہیں کرتے۔ جب وہ اپنا دل، اپنی روح، سکون، آنسو، قہقہے، سب کچھ لفظوں کے حوالے کر دیتا ہے تو لفظ بھی اپنے تمام ظاہر و باطن کے ساتھ اپنا وجود اس کے حوالے کر دیتے ہیں، اب وہ جیسے چاہے انھیں برتے۔ جیسا کہ اقبال نے کہا۔

لفظ ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

قلم کار لفظوں سے تصویر بناتا ہے۔ وہ آپ کو ان جھیلوں کے کنارے لے جا سکتا ہے جہاں چاندنی راتوں میں پریاں غسل کرتی ہیں۔ ان جنگلات میں پہنچا سکتا ہے جہاں بلند و بالا درخت آسماں سے باتیں کرتے ہیں اور زمین تک سورج کی روشنی پہنچنے نہیں دیتے، جہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا رہتا ہے اور آدم خور رہتے ہیں۔ وہ آپ کو بابل کے کھنڈرات کی سیر کرا سکتا ہے جہاں قدیم جادو گروں کی روحیں اور بھٹکی ہوئی چڑیلیں بستی ہیں۔ لفظ گر اس زمانے سے آگے زمانوں میں لے جا سکتا ہے، اور اس زمیں سے باہر، اس کائنات سے پرے دوسرے جہانوں میں لے جا سکتا ہے۔

کون جانتا ہے کہ اُس کی اپنی روح ایک زمانے میں بیٹھے کتنے زمانوں کی مسافر ہوتی ہے۔ روشنی کی تلاش میں ظلمت کے کتنے پاتالوں سے گزرتی ہے۔ کتنی خارزار وادیوں سے گزری ہوئی تار تار ہوتی ہے اور کتنی پُر بہار وادیوں سے گزری مہک دار ہوتی ہے۔ بلاشبہ لکھنا سحر انگیز بھی ہے اور اذیت ناک بھی۔

تمام اچھی تحریروں میں کچھ ان کہا رہ جاتا ہے۔ (کرسچن نیسٹل بووی)

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat