Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Ik Tasawar e Kham

Ik Tasawar e Kham

اک تصوّر خام

آج کی دنیا کامیابی کو گلیمرائز کرتی ہے۔ آج کامیابی وہ شمار کی جاتی ہے جو دوسروں کی آنکھوں کو خیرہ کر دے۔ دوسروں کو پچھاڑے بغیر کامیابی کو کامیابی نہیں سمجھا جاتا۔ ہم سب ایک دوسرے سے ایسی جنگ میں مشغول ہیں جس کے ہتھیار ہم نے منتخب نہیں کیے۔ جس کے فتح و شکست کے پیمانے بھی ہم نے شعوری طور پر طے نہیں کیے۔ ہم عمل و ردعمل کے دائروں میں الجھ گئے اور ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہو گئے۔ ہم لڑ رہے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں۔ ہم بقاء کی جنگ کو کامیابی کی جنگ گرداننے لگے۔

آج کی دنیا میں عدم شعور سے شعور کی طرف بڑھنے والا ہر بچہ کیا سیکھتا ہے؟ وہ ایک دوسرے سے برسرِ پیکار لوگوں کو ہی دیکھتا ہے۔ دھوکے، لالچ، جھوٹ، مار دھاڑ، افراتفری، ہیجان، نفسانفسی۔ ہر ہر عمل، ہر ایک رویہ اس کے کردار کی سلیٹ پر نقش بنا رہا ہوتا ہے۔ ایک نقش دوسرے نقش سے مل رہا ہوتا ہے، مختلف پیٹرنز بن رہے ہوتے ہیں اور اس کے کردار اور رویوں کی تشکیل ہو رہی ہوتی ہے۔

اس کا ذہن معاشرے سے مطابقت کے لیے ان طریقوں کو سمجھتا اور ان طریقوں سے ہی اپنی بقاء کے طریقے ترتیب دیتا ہے۔ علمِ عمرانیات ایک فرد کی معاشرے میں رکن کے طور پر تربیت اور معاشرتی طور طریقے سیکھنے کے عمل کو سوشلائزیشن کہتا ہے۔ اس کا آغاز ابتدائی گروہ سے ہوتا ہے۔ ابتدائی گروہ کی بنیاد گھر ہوتا ہے۔ گھر، معاشرے کی اکائی ہوتا ہے۔ اگرچہ سوشلائزیشن تمام عمر جاری رہتی ہے، مگر جو نقوش بچپن میں بنتے ہیں شخصیت پر ان کی چھاپ گہری ہوتی ہے۔

جوں جوں وہ معاشرے میں آگے بڑھتا ہے اس کی شخصیت میں مزید رنگ گُھلتے جاتے ہیں۔ ایک فرد اپنے معاشرتی ماحول کا عکاس ہوتا ہے اور ساتھ ہی وہ اپنے معاشرتی ماحول کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آج ناکامی سے ہر انسان انتہائی خوف زدہ ہے تو یہ خوف کہاں سے آیا؟ اگر کامیابی کے لیے جائز رستے واضح نہیں تو خلل کہاں پر ہے؟ اسٹریس منیجمنٹ میں صبر، برداشت اور تحمل بنیادی اجزاء ہیں، ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں کی تعلیم و تربیت میں یہ کتنے شامل ہیں؟

معاشرے کی ایک غالب آبادی باہمی خاندانی ناچاقیوں، سازشوں، جائیداد کے جھگڑوں، قبضے اور مقابلہ بازی میں مشغول ہے۔ کروڑوں، غالباً اربوں کے سرمایے کی ڈرامہ انڈسٹری گھریلو سازشوں کی کہانیوں پر چل رہی ہے، ایسے میں جو رویے تشکیل پائیں گے ان کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام اعمال میں مشترکہ شے "حاصل کرنے" کی ذہنیت ہے۔ مادہ پرستی میں کامیابی کا تصور چیزوں کے حصول کے گرد گھومتا ہے۔ انسان کی مذہبی، قانون، اخلاقی، معاشرتی اقدار بھی مادی اشیاء سے منسلک ہو جاتی ہیں۔

کامیابی کا تصور بھی ظاہری خیرہ کر دینے والی چیزوں سے مشروط ہو جاتا ہے۔ مقابلہ بازی کی ایک ایسی فضاء بن جاتی ہے کہ ہر شخص دوڑ رہا ہوتا ہے۔ ہانپ جاؤ، ٹھوکریں کھاؤ، دھکے دو، مگر دوڑتے رہو۔ ہر شخص پانا چاہتا ہے چاہے اس کے لیے اسے دوسروں پر دانت گاڑنے پڑیں۔ اس معاشرتی ماحول میں ناکام ہونے اور پیچھے رہ جانے کا خوف ایسا احساس عدم تحفظ پیدا کرتا ہے جو کہہ رہا ہوتا ہے کہ کچل کر آگے بڑھو یا کچلے جاؤ۔

ہم پورے شدومد سے survival of the fittest کے اصول کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ اس اصول کو آپ جنگل کے جانوروں کی طرح انسانوں پر لاگو کر سکتے ہیں مگر تب جب انسان اپنا معاشرہ جنگل کے جانوروں کی سطح پر لے جائیں۔ جانوروں میں یہ قانون ان کی خود کار اور بے لگام جبلتوں کے باعث کام کرتا ہے۔ مقامِ انسان تو اس سے بلند ہے۔ انسان کا امتیاز شعور ہے۔ انسان کی تمام تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بقاء جن عناصر پر ممکن ہو سکی وہ احساس، تعاون اور تعمیر ہیں۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan