Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Chasham e Beena

Chasham e Beena

چشمِ بینا

مشرق کے مفکر و شاعر اقبال نے کہا تھا۔

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ!

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!

اس جلوۂِ بے پردہ کو پردے میں چھپا دیکھ!

ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ!

بیتاب نہ ہو معرکۂِ بیم و رجا دیکھ!

ساری بات آنکھ کھلنے کی ہی ہے۔ چشمِ بینا میسر ہو تو انسان کیا کیا نہیں دیکھ لیتا۔ کارگہِ دہر کا ہر لمحہ ایک سبق بن جاتا ہے اور ہر فرد ایک استاد کی مانند۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ میں نے احمقوں سے دانش سیکھی۔ بس جو کام وہ کرتے رہے میں نے ان سے پرہیز کیا۔

ہزاروں رنگوں سے سجی، پرت در پرت، جہت در جہت زندگی کے موضوعات میں بہت وسعت ہے۔ مگر ہمارا مرغوب قومی موضوع سیاست ہے۔ سوشل میڈیا کی انگریزی اصطلاح میں ہاٹ ٹاپک جو ہر وقت ٹرینڈنگ میں رہتا ہے اور اس کی سطح یہ ہے کہ روز محض ایک سیاسی بیان پر بھی پوری کی پوری تحریر اور مکمل ٹی وی پروگرام منعقد ہوجاتے ہیں۔ ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے اور اس ہنگامے میں زندگی کے تلخ حقائق، اس کا خِیرہ کن حسن، پوشیدہ اسرار، جا بجا بکھرے رموز، ضروری امور، حقیقی مسائل اور ہر لمحہ پیدا ہونے اور وارد ہونے والے سوالات اوجھل ہوجاتے ہیں۔

انفارمیشن کا زمانہ کہلائے جانے والے اس دور میں اطلاعات و معلومات کا سیلاب ہمارے سروں پر سے بہہ رہا ہے۔ آج ہماری بڑی مشکل کسی شے کے بارے میں معلومات کا حصول نہیں بلکہ معلومات کے ڈھیر میں سے درست معلومات کا حصول اور ان چاہی، غیر ضروری معلومات کو خود سے دور رکھنا ہے۔ جتنی تیزی اور کثرت سے معلومات ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں ہمارے ذہن کو اس کا تجزیہ و تصدیق کرنے کا وقت ہی میسر نہیں آتا اور وہ علم کی صورت اختیار نہیں کرتیں۔ مولانا رومی سے منسوب ایک قول ہے کہ "ہر شے جو حد سے بڑھ جائے زہر ہے"۔ اس الجھاؤ، رفتار اور کثرت میں آج ہر شخص پریشان اور مضطرب ہے، ہر دوسرا تیسرا آدمی ذہنی دباؤ کی شکایت کرتا ہے۔ اس لیے کہ ہم زندگی کی کچھ بنیادی دانش اور بنیادی اصول فراموش کر چکے ہیں۔

انسان کے سامنے دو بنیادی اہداف ہیں۔ پہلا، انسان اپنے آپ کو جانے۔ دوسرا، اپنے سے باہر پھیلی اس کائنات کی حقیقت سے واقف ہو۔ خدا کو جاننے کا راستہ بھی یہی سے گزرتا ہے۔ بعد ازاں خود کو باہر کی اس کائنات سے ہم آہنگ کرے۔ تمام انسانی علوم کا مختلف جہتوں میں مقصد بھی یہی ہم آہنگی ہے۔ ہم جب اپنی اور اس کائنات کی حقیقت کو سمجھے بغیر انھیں ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط فیصلے ہوتے ہیں اور غلط راستے اختیار کرتے ہیں۔ ان کے نتائج منفی ہوتے ہیں۔ منفی نتائج ہماری پریشانی بن جاتے ہیں۔

طے شدہ بات ہے کہ ہر عمل کا ایک اثر ہوتا ہے۔ معاشرتی تفاعل (social interaction) کے ذریعے ہمارے اعمال ایک دوسرے کی شخصیتوں اور زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس سے ایک معاشرتی ماحول تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا جو ہم کرتے ہیں اس کا اثر واپس ہم تک پہنچتا ہے۔ خوش رہنے کا اصول خوش رکھنے میں ہے۔ ہم دوسروں کو بے اطمینانی دیں تو بے اطمینانی کا دائرہ بڑھے گا اور گھوم کر بے اطمینانی ہمارے پاس آئے گی۔ مکافاتِ عمل کا قانون کچھ تو اس سے سمجھا جاسکتا ہے۔

غم بھی زندگی کا حصہ ہے۔ بہت سے غم محض ایک حقیقت ہے، ہمارا رویہ انھیں روگ بنادیتا ہے جیسا کہ کسی عزیز کی موت، بچوں کا بڑا ہوکر اپنی ترجیحات کے مطابق زندگی گزارنا، اور بہت کچھ۔ کئی غم خود ساختہ ہوتے ہیں، کئی زخموں کو ہم بھرنا نہیں چاہتے۔ زخموں کو ہرا رکھنے کا باعث زخموں کو یاد رکھنا ہے اور انتقام کی خواہش پالنے والوں کے زخموں سے تو ہمیشہ خوں رستا ہے۔ خود کو اور دوسروں کو معاف کرنا سب سے بڑا مرہم ہے۔ انسان بوجھ اور بیڑیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔

مشاہدہ علم کا ایک ذریعہ ہے۔ ادراک فہم عطا کرتا ہے۔ تجربہ اس کو پختہ کردیتا ہے۔ بعض اوقات ایک دہقاں یا ایک موچی زندگی گزارنے کے فلسفے میں ایک سرمایہ دار، ایک افسر یا علم کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص سے زیادہ واضح ہوتا ہے۔ تیڑھی میڑھی زندگی کو بڑی سادگی سے دیکھتا ہے۔ اولادِ آدم اپنے بہت سے المیوں کی موجد خود ہے۔ مثلاً کوئی باپ گھر میں بھائیوں کے خلاف سازشیں کرے یا اپنے والدین سے بدسلوکی کرے اور پھر امید رکھے کہ اس کی اولادیں اس کی خدمت کریں گی یا باہم اتفاق سے رہیں گی، بجز حماقت کے سوا کیا ہے۔ جو ماحول آپ نے انھیں دیا، جو رویے انھیں سکھائے، امکانات انھی رویوں کی تشکیل کے ہیں۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ جو بوؤگے وہ کاٹو گے، کا اصول بڑی حد تک اسی طرح سے عمل پذیر ہوتا ہے۔ مگر ہائے خود فریبی۔ انسان کی خود فریبی اس کی سب سے بڑی دشمن ہے مگر اس کی اداؤں میں بڑی دلربائی ہے۔ آدمی عقل ہار بیٹھتا ہے۔

خوف، خواہشات اور تعصبات سے بلند ہوکر انسان آزاد ہوجاتا ہے مگر مسئلہ یہی ہے کہ ان سے ہر آن انسان کی کشمکش جاری رہتی ہے کہ ہر دو میں سے کون کس لمحے مغلوب ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں ترغیبات بہت زیادہ ہیں اور مختلف اقسام کے خوف کی بھی باقاعدہ سوداگری ہے۔ ہماری انفرادی زندگیاں ہی کیا، اس وقت خوف و ترغیبات کے ذریعے عالمی سیاسی، معاشی اور معاشرتی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے۔

دانائی کےلیے بنیادی اوصاف یہ ہیں کہ انسان عقلِ سلیم اور قلبِ سلیم رکھتا ہو۔ یعنی دل درست جگہ پر ہو، فکر کا زاویہ راست ہو۔ زندگی کو طالب علم کی نظر سے دیکھنے والے دانائی کی راستے پر سفر کرتے ہیں۔ آنکھ وا جاتی ہے، اندر اور باہر کی نشانیاں نظر آتی ہیں، راہ میں اشارے ملتے جاتے ہیں اور سفر کٹتا جاتا ہے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad