Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muntazir Ali
  4. Azad Aur Be Niaz Dil

Azad Aur Be Niaz Dil

آزاد اور بے نیاز دل

عرصہ قبل کی بات ہے، اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمانے گزر گئے، علم اخلاقیات کی ایک کتاب ہاتھ لگی تھی، جس میں لوگوں کی آراء سے آزاد ہونے پر بھی باب تھے۔ جدید سیلف ڈویلپمنٹ میں تو اس پر بےشمار لٹریچر ہے۔ ایلف شفق کے معروف ناول "عشق کے چالیس اصول" (فورٹی رولز آف لَو) میں شمس تبریز لوگوں کی رائے کی خواہش اور خوف مولانا رومی کے ذہن سے نکالنے کے لیے انہیں شراب لینے میخانے بھیجتا ہے، اگرچہ وہ بعد میں بہا دیتا ہے مگر "کہاں میخانے کا دروازہ اور کہاں واعظ "مولانا رومی کو لوگ وہاں دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں داب لیتے ہیں۔ ایک وقت پھر آتا ہے کہ خود رومی رقص درویش کا انعقاد سرِ مجمع کرتے ہیں۔

مشہور ماہر عمرانیات سی ایچ کولے، نظریہ آئینہ خود بینی (Looking glass self) میں بیان کرتا ہے کہ ہم خود کو معاشرتی آئینے میں دیکھتے ہیں۔ دوسروں کی رائے کی بنیاد پر اپنی شخصیت کے بارے میں تصور بناتے ہیں۔ معنی یہ کہ ہم اپنے بارے میں رائے بھی دوسروں کی رائے کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ وہ جیسا ہم کو سمجھتے ہیں ہم ویسے خود کو سمجھتے ہیں اور پھر جیسا وہ چاہتے ہیں ہم ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ لوگوں کی رائے ہمیں خوش یا اداس کر دیتی ہے۔

نوبل انعام یافتہ ادیب گبرئیل گارشیا مارکیز شہرت کو کسی ادیب کا قاتل قرار دیتا ہے کہ پھر لوگوں کی رائے اس پر اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ مارکیز نے درست ہی کہا، ادیب لوگوں کی رائے بارے سوچے گا تو لکھے گا کیا؟ لافانی ادب تو بے کراں اور بے کنار تخیل اور آزاد دل کی تخلیق ہوتا ہے۔ اگر لکھنے والے، لوگوں کے ذہنوں کے قیدی ہوتے تو ادب کا کوئی شاہکار تخلیق نہیں ہوتا۔ ادب کے شاہکار تو اپنے زمانے سے بلند ہو کر لکھے گئے۔ غلامی میں آزادی کے گیت تخلیق کئے گئے۔ ادب ہی کیا، کوئی بھی فن لوگوں کی خوشامد و خوف سے آزاد ہو کر ہی جِلا پاتا ہے۔

فرد کی تگ و دو اپنے بارے میں دوسروں کی رائے کنٹرول کرنے کی ہوتی ہے درحقیقت اس کوشش میں وہ خود کنٹرول ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ مشہور کہانی تو پرانی ہو چکی ہے کہ باپ اور بیٹا گدھا لیے نکلتے ہیں، راہ گیروں کی رائے کے باعث دونوں باری باری گدھے پر سوار ہوتے ہیں مگر دیکھنے والے طعنہ ہی دیتے ہیں۔ دونوں بہ یک وقت بھی سوار ہوکر دیکھتے ہیں اور پھر دونوں ہی اتر کر خالی پشت گدھے کی رسی تھامے چلتے ہیں مگر ہر بار انہیں دیکھنے والوں کی رائے اپنے خلاف ملتی ہے۔ لوگوں کی رائے کے بوجھ تلے دبا انسان اندرونی خوشی و اطمینان سے ہم کنار نہیں ہوتا۔ یہ حق میں ہو تو انسان پر توقعات کا بار لاد دیتی ہے اور خلاف تو رنج و تکلیف سے دوچار کر دیتی ہے۔ صوفیاء اور روحانیت سے تعلق رکھنے والے اس سے آزادی کے لیے اسی لیے ریاضتیں اور مجاہدات کرتے ہیں۔

خوشامد بھی لوگوں کی رائے کی ایک قسم ہے اور تنقید بھی۔ دونوں ہی انسان کو اصل سے بھٹکا دیتی ہیں۔ احساس کمتری یا برتری کے عارضے لاحق کر دیتی ہیں۔ بادشاہوں، امراء اور طاقتور لوگوں کے گرد خوشامدی جمع ہو جاتے ہیں جو ان کو زمینی حقائق اور حکمت سے کاٹ دیتے ہیں۔ تاریخ میں بہت سے بادشاہوں کی تباہی کی وجہ ان کے گرد خوشامد پسند ہی رہے ہیں۔ دل دوسروں کی رائے کا خوگر ہو جائے تو ہی ریاکاری جنم لیتی ہے۔ حج کے بعد بہت سے لوگ حاجی کہلوانے کے لیے نام کے ساتھ باقاعدہ حاجی لکھنے لگتے ہیں۔ آج تو براہ راست سوشل میڈیا کو اس عمل کا گواہ بنایا جاتا ہے۔

انسان معاشرتی حیوان ہے یہاں لوگ بھی موجود رہیں گے اور ان کی آراء بھی۔ ایک خود مختار اور آزاد دل ان سے بے نیاز رہتا ہے۔ لوگوں کی رائے اس تک عقل کی چھلنی سے گزر کر آتی ہے۔ لوگوں کی رائے سے متاثر ہونے کی سطحیں ہوتی ہیں۔ کوئی تو اتنی سطحی، اتنی عبث ہوتی ہے کہ زندگی کو بے رنگ و مقصد کر دیتی ہے۔ مثلاً لوگوں پر اثر ڈھالنے کے لیے قرضے لے کر شادی بیاہ پر بے پناہ اخراجات کیے جاتے ہیں۔ پھر اس بوجھ تلے کراہتے ہیں۔ جن پر اثر ڈالنا تھا انہیں کوئی خامی مل ہی جاتی ہے۔

ایسے معاشروں کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ زندگیاں رسم و رواج تلے دبی سسکتی ہیں۔ وہاں لوگوں کی آراء دوسروں کی دل اور روحیں تاراج کرتی ہیں۔ لڑکیاں برادری میں جوڑ نہ ہونے کے باعث گھروں میں بوڑھی ہو جاتی ہیں مگر ذات، برادری کی گڑی میخیں نہیں اکھڑتیں۔ انسان دوسروں کی رائے کا دو طرح سے قیدی ہوتا ہے۔ اس کے مخالف ہونے کا خوف یا حمایت میں ہونے کی خواہش۔ دل ان دونوں سے بے نیاز ہو تو زندگی اپنے جوہر سے آشنائی حاصل کر لیتی ہے مگر یہی مشکل ہے۔ اس کے لیے اتنی بے نیازی درکار ہوتی ہے جتنی دور غیر آباد خطے میں لیٹی ہوئی کوئی نیلی جھیل بے نیاز ہوتی ہے۔

لوگوں کی رائے سے بے نیاز شخص کیسا ہوتا ہے؟ کیا وہ ہر وقت معاشرے سے ٹَھکراتا پھرتا ہے؟

وہ محض ایک حقیقت سے پوری طرح آشنا ہو جاتا ہے کہ لوگ اپنے تعصبات، تصورات، جذبات اور تجربات کے قیدی ہوتے ہیں۔ رائے بھی انھی پر قائم کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں کا قیدی نہیں بناتا۔ وہ جان لیتا ہے وہ لوگوں کی آراء کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ خود کو بار بار تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ حقیقت اسے اطمینان، آزادی اور بے نیازی عطا کر دیتی ہے۔ وہ اپنی عقل، بصیرت اور دل کی نظر سے دیکھتا ہے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan