Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Faisal
  4. Mulk Ki Audio, Video Marka Siasat Kya Gul Khilaye Gi?

Mulk Ki Audio, Video Marka Siasat Kya Gul Khilaye Gi?

ملک کی "آڈیو، وڈیو مارکہ سیاست" کیا گل کھلائے گی؟

اقبال نے کہا تھا کہ "محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ " حضرت اقبال تو تقریباََ ایک صدی قبل ہی دنیا کو رنگ بدلتے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے لیکن اب جو دور ہے اس میں کوئی بھی خبر حیرتوں کے پہاڑ نہیں توڑتی ہے۔ سیاست کا میدان بھی عجیب ہے۔ ایک انگریزی مقولہ ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست اور ہمارے سیاستدان آج کل "سب کچھ جائز ہے"کے مقولے پر عمل پیرا ہیں۔

بدلتی ہوئی دنیا اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہماری سیاست میں آڈیوز اور ویڈیوز لیکس کی شکل میں ہو رہا ہے۔ واقفان حال تو بتا رہے ہیں کہ ملک کی آئندہ سیاست کا محور ہی یہ آڈیوز اور ویڈیو ہوں گی اور اب کس کے پاس کتنی اور کس نوعیت کی وڈیوز ہیں؟ یہ تو وہی جانتے ہوں گے لیکن کچھ ستم ظریفوں نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ آئندہ الیکشن "ٹوٹوں کا الیکشن" کا ہو گا۔

ہمارے ملک میں آڈیو لیکس ہونے کی بھی ایک تاریخ ہے۔ پہلے ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں تھی تو ان آڈیوز کی صحت ہمیشہ مشکوک ہی رہتی تھی۔ اب دور بدل گیا ہے۔ ہر بچے کے پاس جدید موبائل فون موجود ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس موبائل فون نے ہر شخص کو تحقیقاتی رپورٹرز بنا دیا ہے اور کب آپ کی کون سی حرکت کیمرے کی آنکھ میں قید کر لی جائے؟ آپ اس سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔

ہم بات کر رہے تھے آڈیو لیکس کی تاریخ کی تو 90ء کی دہائی میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو ایس جی ایس کو ٹیکنا کیس میں پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ سزا لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ملک محمد قیوم کی قیادت میں بنچ کی طرف سے سنائی گئی تھی۔ انہی دنوں میں ایک آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں مذکورہ جج کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور اس وقت کے احتساب کمیشن کے چیئرمین سیف الرحمٰن آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور ملزمان کو سزائیں سنانے کے حوالے سے جج پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ملک قیوم کی آڈیو ٹیپ کو اس فیصلے کے خلاف اپیل میں نہ صرف بطور شہادت پیش کیا گیا تھا بلکہ اس آڈیو ٹیپ کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے۔ جب سپریم کورٹ میں اس اپیل کی سماعت ہوئی تو اس وقت سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو ملک سے باہر تھیں اور ان کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت ہوئی تھی۔

یہ تو تھی تین دہائی پرانی بات۔ اس اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک کی سیاست میں آڈیوز اور وڈیوز کی بہار آ گئی ہے۔ پہلے نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی وڈیو سامنے آئی تھی۔ اس کے بعد چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی ایک وڈیو کی زد میں آئے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سامنے آئی، سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی وڈیو نے بھی سوشل میڈیا پر تہلکہ مچایا۔

مریم نواز کی بھی آڈیوز لیک ہوئیں جس میں وہ چند چینلز کے اشتہارات روکنے کے احکامات جاری کر رہی تھیں تاہم اس میں اچھی بات یہ ہے کہ مریم نواز نے اس آڈیو کی حقیقت سے انکار نہیں کیا اور برملا اس کا اعتراف کیا کہ یہ آواز ان کی ہے۔ آج کل سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پارٹی کے سوشل میڈیا ہیڈ ڈاکٹر ارسلان خالد کی ایک مبینہ آڈیو لیک بھی خبروں کی زینت ہے جس میں سابق خاتون اول غداری کے بیانیے کو مزید پھیلانے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں۔

سابق وزیر نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر اس وقت ویڈیوز اور آڈیوز کے حوالے سے سب سے زیادہ با خبر شخصیت تصور کیے جا رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ہر میڈیا ٹاک میں صحافیوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ اب "کیسے کیسے شاہکار" سامنے آنے والے ہیں۔ ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ ایسی ویڈیو بھی سامنے آنے والی ہیں جن میں کچھ افراد سوئمنگ پولز اور واش رومز میں گرے ہوئے نظر آئیں گے۔

ایک سینئر صحافی اپنے ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کرتے نظر آئے دونوں جانب آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک پارٹی کی جانب سے وڈیو سامنے آئے گی تو دوسرا فریق مقابلے میں دو ویڈیوز جاری کرے گا اور یہ ویڈیوز ہر قسم کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری سیاست اب کسی فلم کی طرح "بڑے پردے" پر چلا کرے گی۔ یہ وہ صورت حال ہے جس نے ملک کے سنجیدہ حلقوں کو انتہائی پریشان کر دیا ہے۔

ان کو ایسے لگ رہا ہے کہ جس طرح ان آڈیوز اور ویڈیوز کے آنے کا سلسلہ جاری ہے اگر وہ نہیں تھما تو جس طرح "عشق کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی" اسی طرح ان آڈیوز اور ویڈیوز کی بھی کوئی انتہا نہیں ہو گی۔ لگتا یوں ہی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ یہ برہنگی حمام تک ہی محدود رہے۔ اگر یہ چوراہوں تک آ گئی تو ملک کا چہرا انتہائی بدنما ہو سکتا ہے۔ تمام حلقوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اب ان آڈیوز اور ویڈیوز کے سامنے بند باندھنا ہو گا۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad