Behissi Ka Ehad
بے حسی کا عہد

منظر ہے کہ بھلایا ہی نہیں جارہا ہے۔ ایک بچی ہے کہ جس نے دنیا میں آنا تھا لیکن ایسے تو نہیں جس طرح وہ آئی اور پھر چلی بھی گئی۔ یہ شہر ہے کہ کوئی موت کی وادی ہے۔ انسان یہاں کس کس سے محفوظ رہے۔ یہاں پہلے لسانیت کی بنیاد پر لوگوں کو مارا گیا۔ پھر فرقہ واریت کی باری آئی تو مرنے والے پھر اسی شہر قائد کے باسی تھے۔ جنگ افغانستان میں شروع ہوئی تو دہشت گردی کا نشانہ بھی یہاں کے لوگ ہی بنے۔ ٹارگٹ کلرز اپنی خون کی پیاس بھی اسی شہر بے اماں سے بجھاتے رہے۔ یہاں کے نوجوان ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ کون سا عذاب تھا جو اس شہر میں نہیں آیا۔ چند سالوں سے اس عروس البلاد نے کچھ جینا سیکھا تھا۔ یہاں کے باسی اسٹریٹ کرائمز کا ضرور شکار تھے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ شہر کی سڑکیں ایک مرتبہ پھر ان کے لیے مقتل بنیں گی اور وہ یہاں ٹریلرز اور ڈمپرز کے نیچے آکر کچلے جائیں گے۔
کوئی روز ایسا نہیں گزرتا ہے جب یہ قاتل ڈمپرز اور ٹریلرز یہاں موت نہ بانٹیں۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنا جن کی ذمہ داری ہے وہ ٹولیوں کی شکل میں موٹر سائیکل سواروں کو روک کر چالان کرنے میں مصروف ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کو چند روپوں کی خاطر شہر میں دندنانے کی اجازت دیدی جاتی ہے۔ 17 سال سے صوبے کی حاکم جماعت کے لیے شہر قائد سونے کی چڑیا کی طرح ہے۔ بس یہاں سے کمانا ان کا مقصد ہے ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ لوگ سڑکوں پر مریں یا اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں، بس ان کا اپنا پیٹ بھرنا ضروری ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ 18 سال سے سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلزپارٹی شہر قائد میں ٹریفک سے متعلق قوانین میں موثر ترامیم نہ کرسکی جس کے باعث ٹریفک حادثات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے اور ہر سال سیکڑوں افراد ان حادثات کا شکار اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ سندھ اسمبلی سے اپنے من پسند قوانین منظور کرانے والی پیپلزپارٹی 18 سال سے ٹریفک قوانین سے متعلق ایک ترمیم بھی منظور نہیں کراسکی ہے۔
موجودہ قوانین کی بات کی جائے تو ان کے تحت حادثات کے ذمہ دار ڈرائیورز کو قرار واقعی سزا نہیں ملتی جس کے نتیجے میں دوسرے ڈرائیورز بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ موجودہ قوانین انتہائی نرم ہیں اور اگر واقعات میں ملوث ڈرائیورز گرفتار بھی ہوتے ہیں تو ان قوانین میں موجود خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شہر میں بہت سے غیر رجسٹرڈ ڈمپرز، ٹرک اور ٹینکرز بھی چل رہے ہیں جن پر آویزاں نمبر پلیٹس بھی اصلی نہیں لیکن محکمہ ایکسائز سندھ کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے اور حادثات بڑھ جانے کی صورت میں صرف خود ساختہ کریک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
ٹریفک حادثات کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ موجود قوانین کی مختلف دفعات، سزاؤں اور جرمانے کی رقم میں تبدیلی کی جائے۔ حکومت کی جانب سے ڈمپر، ٹینکرر ڈرائیورز کے ڈرگ ٹیسٹ کرانے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس لیے قانون سازی میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اگر کسی ڈرائیور کے ٹیسٹ سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ نشے کا عادی ہے تو اسے نہ صرف ڈرائیونگ لائسنس جاری نہیں کیا جائے بلکہ پہلے سے جاری ڈرائیونگ لائسنس بھی منسوخ کردیا جائے۔ موجودہ قوانین کے تحت حادثے کی صورت میں صرف ڈرائیور ہی واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایاجاتا ہے قوانین میں ترمیم کرکے گاڑی کے مالک کو بھی شریک ملزم کے طور پر شامل کرنے سے ٹریفک حادثات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
کراچی کے شہری اس صورتحال سے عاجز آچکے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس طرح مرنے کے لیے سڑکوں پر نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنے ماں باپ کے ساتھ خدا کے حضور پیش ہونے والی بچی کاچہرا بھی اگر حکمرانوں کی آنکھیں نہیں کھول سکا تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم بے حسی کے عہد میں جی رہے ہیں۔

