Shehr Se Shehr e Khamoshan Ka Manzar
شہر سے شہر خاموشاں کا منظر
مُجھے دُنیا میں آئے کچھ دِن ہوئے تھے، میں اپنی ماں کے آنگن میں لیٹا دُنیا سے بےخبر ہر پل محبتیں سمیٹ رہا تھا۔ ماں کا پریشانی اور بےچینی کے عالم میں اچانک چھاتی سے لگانا اور اپنے پہلو میں چھُپانا مُجھے تذبذب میں مبتلا کررہا تھا لیکن میں ماں سے چپٹا رہنا چاہتا تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے گرجدار آوازیں آنے لگیں جس سے زمین تھر تھرا اُٹھی اور عمارتیں لرز نے لگی اور کنکریٹ کا آسمان ہمارے اوپر آگِرا۔
ماں کی آخری آواز دِل کو چیرنے والی تھی۔ گِرے ہوئے کنکریٹ کے آسمان کی تپش میرے جسم کو جُھلسا رہی تھی جبکہ ماں کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ میں اندھیرے میں ڈر تے ہوئے ماں کو پُکار رہا تھا میرے نازک جسم پر ایک بوجھ بڑھتا چلا جارہا تھا لیکن ماں بول نہیں رہی تھی شاید جہاں سے میں آیا تھا ماں کو وہاں واپس بُلا لیا گیا ہو۔ میرا دِل ماں کو ملنے کو بے تاب تھا۔ آوازوں کی شدّت میں تو اضافہ ہورہا تھا لیکن ماں کی آواز نہیں آرہی تھی۔
کچھ انسانوں کی آوازیں آنے لگی اور پھر مُجھے اور ماں کو کنکریٹ سے باہر نکالا گیا، جہاں میری طرح کے ننھے مُنھے بے شمار جنت کے پھول خون میں لت پت زمین کو گلنار کر رہے تھےاور ہرشخص آہ وبکا کرتا ہوا اپنے پیاروں کی کٹی پھٹی لاشیں نکال رہا تھا۔ وہیں ایک شخص میری ماں کے لئے بولا کےیہ عورت شہید ہوچکی لیکن بچے کی سانسیں چل رہی ہیں۔ میرے سامنے ہر جگہ ملبہ ہی ملبہ تھا جس میں انسانوں کی مسخ شدہ لاشیں تھیں۔ میں دُنیا کو ایسا دیکھ کر ڈر گیا اور آخری ہچکی کے ساتھ اپنی ماں سے ملنے واپس لوٹ گیا۔
مسجد اقصیٰ، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے لئے تیسرا سب سے مقدس ترین مقام ہےمسلمانوں کی وہ مقدس جگہ جس کی طرف منہ کرکے مسلمانوں نے نماز ادا کی۔ وہی مسجدِاقصیٰ جہاں سے آقائے دوجہاں معراج پرتشریف لے گئے۔ سرزمین فلسطینایک مبارک اور محترم جگہ ہے، جہاں آسمانی پیغامات، انبیا اور رُسل آئے، یہ آسمان کا دروازہ ہے، یہ سرزمین محشر بھی ہے۔ اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہؓ کو اپنی زندگی میں تین اہم مساجد کی زیارت کرنے کا حکم دیا، مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰیروشلم میں اس لیے کہ ان تینوں مساجد میں سے کسی ایک میں بھی نماز پڑھنے کا ثواب کسیاور جگہ کی نماز سے پانچ سو گنا زیادہ ہے۔ ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺسے بیت المقدس کے بارے میں دریافت کیا توآپ ﷺنے فرمایا: یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے، یہاں آؤ اور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے، ان صحابیؓ نے استفسار کیا: اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو، جو وہاں چراغ میں کام آئے(ابن ماجہ)۔
سرزمین فلسطین کا ذِکر قرآن پاک میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔ یہ سات ہزار سال سے بھی پرانی تہذیب کی زندہ وجاوید علامت ہے۔ ارشاد باری تعالی کے مطابق یہ برکتوں والی زمین ہے۔ اس کے مسلمانوں کا بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے، اِن مسلمانوں کو یہود و ہنود گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں، مصائب اورمظالم کے پہاڑ ڈھائےجا رہے ہیں، مظلوم مسلمانوں کی پکار سننے والا کوئی نہیں، قبلہ اؤل بیت المقدس کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، نہتے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنائی جا رہی ہے۔
قاتل میرا نشان مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاوں گا
7 اکتوبر 2023کو شروع ہونے والی جنگ جس میں فلسطین کے پریشان حال غیور عوام نے اسرائیل کی روزمرہ کیزیادتیوں سے تنگ آکراور لگاتار حملوں کے جواب میں حملہ کیا تاکہ اپنے خاندان کے شہیدوں کا بدلہ لیا جاسکےوہ اب اِس قدر بڑھ چُکی ہے کہ اسرائیل طاقت کے نشے میں نہتے فلسطینیوں کی نسل کُشی پر اُتر آیا ہے۔ ہزاروں بچوں کے کٹے پھٹے جسم اور جوانوں کی لاشیں رکھنے کی جگہ تک نہیں بچی۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی عدم فراہمی کی وجہ سے حالات انتہائی دگرگوں ہو چکے ہیں۔ غزہ میں جوان مردوں، عورتوں اور بچوں کے جنازے پہ جنازے اُٹھ رہے ہیں اور علاقہ تباہی و بربادی کی داستانیں بیان کر رہا ہے۔ زندہ لوگ دہائیاں دے رہے ہیں اور پکار پکار کر یہ کہہ رہے ہیں کہ:
کہاں ہے ارض و سماں کا خالق کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو میں تر ہے، زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے
فلسطین اس وقت آگ باردو خون کی زد میں ہے۔ چالیس روز سے زائد ہوگئے ہیں اسرائیل غزہ میں رہائشی عمارتوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس وقت وہاں نہ بجلی، پانی، خوراک اورنہ ادویاتہیں۔ بہت سے ممالک اور بہت سا مغربی میڈیا اسرائیل کی کھل کر حمایت کررہا ہے۔ جو لوگ فلسطین کے حق میں بات کررہے ہیں ان کے سماجی روابط کے ذرائع کو بند کیا جارہا جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ فلسطین کے لئے آواز بلند کررہے تھے جوکہ صہیونی لابی کو پسند نہیں آیا۔ بقول شاعر:
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
آج اسرائیلی بربریت جاری ہے اور امریکہ اس بربریت میں اسرائیل کا نہ صرف حمایتی ہے بلکہ وہ مسلمانوں کی اس نسل کشی کا سب سے بڑا مجرم بھی ہے۔ ان دِنوں بھی فلسطین میں جو ہو رہا ہے امریکہ کی سرپرستی میں ہی ہو رہا ہے۔ امریکہ نہ صرف اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے بلکہ ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے، اسلحہ و دیگر سازو سامان اسرائیل بھیجا جا رہا ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں۔ ادھر مسلم ممالک کے حکمران صرف اور صرف بیانات کی حد تک محدود ہیں۔
مفلسِ شہر کو دھنوان سے ڈر لگتا ہے
پر نہ دھنوان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے
اب کہاں ایثار و اخوت وہ مدینے جیسی
اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے
عملی طور پر فلسطینیوں کی حمایتیا ان کی مدد کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا اور وقت کے فرعون اسرائیل نے فلسطینی شہر غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے، انسانی حقوق کے علمبردار ہو نے کا دعویٰ کر نے والا نام نہاد یہ وہی امریکا ہے جسے نہ تو مظلوم فلسطینیوں کا دہائیوں سے بہتا خون نظر آتا ہے نہ اسے کشمیر میں کھیلی جانے والی ہولی دکھائی دیتی ہے۔ نہ تو کبھی امریکہ کو خیال آیا کہ فلسطین و کشمیر میں بھی انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی قوم آج بھی زندہ و جاوداں ہے اور ایک دن وہ فلسطین کو آزاد کروا کر رہے گی، خواہ اس کے لیے اس کو کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ اُمتِ مسلمہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ یہ بھی ہے۔ بہ قول اقبال:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوٰی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات