Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Danish Hanif
  4. Youthiya Aur Patwari

Youthiya Aur Patwari

یوتھیا اور پٹواری‎‎

یار مہنگائی بہت ہو گئ ہے، ہاں تو اب تم پٹواریوں کو آرام آ گیا ہو گا، کپتان کے 150 لیٹر والے پٹرول اور 184 روپے والے ڈالر پر تمہاری چیخیں عرش سے تھوڑا ہی پیچھے رہتی تھیں۔ ہاں ہاں تو یوتھۓ یہ بھی توبتاؤ ناں کہ آئی ایم ایف سے بجلی اور تیل پہ سبسڈی ختم کر کے ڈالر کی قسط لینے کا معاہدہ تمہارے کپتان نے کیا تھا، بورس جانسن نے نہیں۔

اور پھر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتے دیکھی تو پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر کے قوم کو بیوقوف اور آئی ایم ایف کو ناراض کر دیا۔ اور وہ ناراضگی ایسی ہوئ کہ اب تک ختم نہ ہو سکی جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا، رسد میں کمی ہوئی اور تو اور ذخیرہ اندوزوں نے بھی جی بھر کے فائدہ اٹھایا۔ جس کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہوا اور ہوتا ہی رہا۔

یہ بھی یاد رہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل اور کھانے کے تیل کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان کا ایک ماہ کا امپورٹ بل لگ بھگ 7 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ تو جب اتنی مقدار میں ڈالر خرچ ہوں گے تو ڈالر بھی مہنگا ہوگا اور آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے سبسڈی کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ یہ سارے معاہدے محترم شوکت ترین صاحب نے کیے تھے، جو کہ خان صاحب کے وزیر خزانہ تھے۔

یار ویسے سلام ہے تم پٹواریوں کو، سب جانتے ہو کہ باپ اور بیٹا دونوں پر چوری کا الزام ہے، اور ایک تو ضمانت پر ہے، پھر بھی اندھی حمایت میں میرے کپتان پر الزام لگا رہے ہو۔ ایک اور بات کپتان نے روس سے سستا تیل اور گندم کا معاہدہ کر لینا تھا۔ جس کے بعد مہنگائی ختم ہو جانی تھی، مگر تم لوگوں نے سازش کے ذریعے حکومت تبدیل کر دی۔

اور یہ بتاؤ کہ ساڑھے تین سال کپتان کو دے کر ہر غلطی کا ذمہ دار اسے قرار دے رہے ہو تمہارے شیروں نے 30 سال میں کون سی دودھ کی نہریں بہا دی تھیں؟ یار لگتا ہے یوتھیوں کی عقل گھاس چرنے کے بعد واپسی کا راستہ بھول گئ ہے، میاں صاحب کو چور کہنے سے پہلے یہ تو بتاؤ کہ توشہ خانہ کے تحفے بیچنے والا کیا کہلاۓ گا؟ اور کہو تو فرح گوگی کی کرپشن کے قصے سناؤں؟

کیا فرح گوگی پبلک آفس ہولڈر تھی؟ اور رہ گئ بات توشہ خانہ کی تو وہ تمام تحائف قانون کے مطابق طےکردہ قیمت ادا کر کے لۓ گۓ تھے، اور ملکیت حاصل کرنے کے بعد کوئی بیچے یااپنے پاس رکھے کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ جب کہ تمہارے شیروں کی چوری تو عدالت میں ثابت ہوئی، سزا ہوئی اور بیماری کے نام پر لندن کی سیر ہو رہی ہے اس کا کیا؟

اور ایک بات بتاؤ، اپریل کے مہینے کے شروع میں کوئی لوڈشیڈنگ نہیں تھی، تمہارے اسپیڈ کے آتے ہی بجلی بھی لگتا ہے۔ بیمار ہو کر لندن چلی گئ ہے۔ گوگی پبلک آفس ہولڈر نہ ہوتے ہوۓ بھی تمام تر ٹرانسفر، پوسٹنگز کروا رہی تھی اور اس کے بدلے جو پیسے لۓ جا رہے تھے ان کا بالواسطہ فائدہ کسے ہو رہا تھا، یہ بہت جلد سامنے آ جاۓ گا۔

اور یہی توشہ خانہ کے تحائف میاں صاحب نے بیچے ہوتے تو تم لوگوں نے بنی گالہ سے سوات تک رولا ڈالا ہوا ہوتا۔ رہ گئ بات لوڈ شیڈنگ کی تو وہ تیل کی کمی اور مہنگے ہونے کی وجہ سے ہو رہی ہے، اور یہ مت بھولو کہ بجلی بنانے کے پلانٹس شہباز اسپیڈ نے ہی 2013 سے 2018 کے درمیان لگاۓ تھے، اور يہ تو بتاؤ کہ مالم جبہ کیس، پٹرول اسکینڈل، چینی اسکینڈل میں کس کس کو پھانسی ہوئی؟

یار تم پٹواریوں کے مںہ لگنے سے بہتر ہے کہ تمہارا نمبر ہی بلاک کر دیا جاۓ، ہاں ہاں تم قوم یوتھ کے منہ لگنا بھی کون چاہتا ہے، میں بھی اب تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا۔ کیا لگتا ہے آپ کو؟ کون تھے یہ دونوں جنہوں نے ایک لا حاصل بحث کے بعد ایک دوسرے کا منہ ناں دیکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ یہ دونوں برسوں پرانے جگری دوست بھی ہو سکتے ہیں، بھائی بھی ہو سکتے ہیں، بھائی بہن بھی، کزن بھی، پرانے پڑوسی بھی۔

اور یہ گھر گھر کی، گلی محلے، دفتر، شادی ہال، ریسٹورنٹ، ہوٹل، بازار کہیں بھی چلے جائیں۔ آپ کو یہ بحث ہوتی نظر آ جاۓ گی۔ سیاسی بحث ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، مگر اس بحث کو اس حد تک لے جانا کے برسوں پرانے رشتوں میں دراڑ آ جاۓ یہ بالکل غیر معمولی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رشتوں میں یہ دراڑیں جن لوگوں کی اندھی نفرت و عقیدت (بشکریہ نصرت جاوید صاحب) کی وجہ سے آتی ہیں۔

وہ آپ کو جانتے تک نہیں اور نہ انکی لگژری لائف میں کوئی فرق پڑتا ہے۔ مگر ہم اپنے قریبی رشوں سے دور ہو جاتے ہیں، نمبر بلاک کر دیتے ہیں، سامنے آ جانے پہ چہرہ پ​ھیر لیتے ہیں۔ آپ نے جسے سپورٹ کرنا ہے کریں، جسے ووٹ دینا ہے دیں، مگر خود کے انتخاب کودرست کہ کر دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ آج کے دور میں ہر کسی کے پاس معلومات کے ذرائع ہیں۔

مرضی کے لیڈر کو سپورٹ کرنے والے ٹی وی چینلز ہیں، تو کیا ضروری ہے کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوا جاۓ؟ وقت پہ کام آنے والے رشتوں سے دوری اختیار کی جاۓ، وہ بھی ان لوگوں کے لۓ جو ہمیں اپنے گھر میں بھی نہ گھسنے دیں۔ ماناکہ ہم 'اختلاف راۓ پہ اتفاق ' نہیں کر سکتے مگر اختلاف راۓ کو اس حد تک نہ لے جانے دیں کہ رشتے ہی ٹوٹنا شروع ہو جائیں۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti