Qissa Aik Company Ka
قصّہ ایک کمپنی کا
یہ قصّہ ایک "کمپنی" کا ہے، ایک ایسی کمپنی کا جس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نہ صرف با اختیار تھے بلکہ بہت حد تک فیصلہ ساز بھی تھے۔ کمپنی کے مروجہ آئین کہ مطابق، سی ای او کا انتخاب باقاعدہ چناؤ کے ذریعے کیا جاتا تھا، مگر زبان زدوعام یہی تھا کے اس چناؤ میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
اس ہی سلسلے میں چناؤ ہوۓ جس میں ایک امیدوار ٣/٢ اکثریت سے سی ای او منتخب ہوا مگر مخالف امیدوار نے چناؤ کے نتائج کو ماننے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اپنے سیاسی کزن کے ساتھ مل کر اور دھاندلی کے الزامات لگا کر لمبے عرصے تکدھرنا بھی دیا مگر منتخب سی ای او کو ہٹانے میں ناکام رہا۔
دھرنے کے دوران اور دھرنے کے بعد مخالف امیدوار نے منتخب سی ای او اور اسکی ٹیم پر کرپشن کے ہوشربا الزامات لگاۓ اور پوری کمپنی کو یہ یقین دلایا کے سی ای او کی تبدیلی نا گزیر ہے۔ یہ دعوے کۓ جاتے کہ تبدیلی کے ساتھ ہی شفّاف اور یکساں احتساب ہوگا، لوٹ کا تمام مال واپس لیا جائے گا، قرض میں ڈوبی کمپنی کا نہ صرف قرض اتارا جائے گا بلکہ دوسری کمپنیوں کو بھی قرض فراہم کیا جائے گا، کمپنی کے تمام تر لوگوں کا طرز زندگی تبدیل کر دیا جائے گا۔
مفت علاج، سیکورٹی اور انصاف فراہم کیا جائے گا، مہنگائی کا خاتمہ کر دیا جائے گا، کمپنی کے لوگوں کو اچھی نوکری کے لئے دوسری کمپنیوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی، بلکہ دوسری کمپنیوں کے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے یہاں آئیں گے۔ کمپنی کا پرمٹ سب سے طاقتور ہوگا، سکّہ سب سے نمایاں ہوگا، لاکھوں گھر اورکروڑوں نوکریاں دی جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام دعووں کو سن کر لوگوں کو یقین ہونے لگا کے اب شاید کمپنی کی قسمت بدلنے والی ہے، وہ مسیحا آ گیا ہے کہ جس کا انتظارتھا۔
جوں جوں چناؤ کا وقت قریب آتا گیا، مخالف امیدوار کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اسکی پوزیشن مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ کہنے والے یہ بھی کہتے کہ امیدوار کے ساتھ بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ایک ہی پیج پہ ہیں اور اب کی بار یہ امیدوار منتخب ہو ہی جائے گا۔ اور بلاخر چناؤ بھی ہو گۓ اور ممکنہ امیدوار نے اکثریت بھی حاصل کر لی مگر سی ای او کے عہدے تک پہنچنے کے لئے کچھ دوسرے اراکین کو بھی ملانا پڑا، ان ارکان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہیں ماضی میں "ناقابل مکرّر" قسم کے الزامات سے نوازا گیا تھا مگر کمپنی کے وسیع تر مفادات میں سب کچھ بھلا دیا گیا۔
کمپنی کے لوگ پرجوش بھی تھے اور پر امید بھی۔ ترقی، خوشحالی، امن، انصاف اور بلا امتیاز احتساب کے متمنی بھی کہ چناؤ سے قبل جو دعوےکۓ گۓ تھے اب انہیں نبھانے کا وقت آ چلا تھا۔ کمپنی کے زیادہ تر لوگ، بورڈ آف ڈائریکٹرز، مواصلاتی ذرائع اور سماجی نیٹ ورک سی ای او اور اس کی ٹیم کے شانہ بہ شانہ تھے۔
سی ای او نے عہدہ سنبھالتے ہی کچھ ایسے فیصلے کۓ جن سے تمام لوگ، مواصلاتی ذرائع بشمول بورڈ آف ڈائریکٹرز سب کے سب ششدر رہ گۓ۔ ان تمام فیصلوں میں سب سے چونکا دینے والا فیصلہ انتظامی، مسائل اور وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑے ڈپارٹمنٹ میں ایک ایسے شخص کی تعیناتی تھا جسے خود بھی اسکی امید نہیں تھی اور بقول اسکے وہ سیکھنے کے مراحل میں تھا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اس تعیناتی کو پسند نہیں کیا کہ تعیناتی کا واحد پیمانہ نام کے پہلے حرف کا مشترک ہونا تھا۔ بحرحال سی ای او کی دامے درمے سخنے مدد کی گئی کہ اب ڈلیوری کا وقت آپہنچا تھا۔
سب سے بنیادی مسئلہ تھا کمپنی کے خالی خزانے کو بھرنے کا جسے بقول نۓ سی ای او کے پرانے سی ای او اور اسکی ٹیم کے لوگ اپنی کرپشن سے خالی کر گۓ تھے۔ خزانے کو بھرنے کی زمے داری ایک ایسے شخص کو دی گئی جسے اعدادوشمار کا جادوگر سمجھا جاتا تھا اور جو پرانی مینجمنٹ کے دور میں سب کو بتاتا تھا کے خزانہ کیسے بھرنا ہے اور کمپنی کی معیشت کو کیسے پروان چڑھانا ہے۔
مگر ہوا کچھ یوں کے اس معیشت کے جادوگر کے آتے ہی خزانہ مزید خالی ہوتا چلا گیا، کمپنی کے سکّے کی قدر مزید کم ہوتی چلی گئی، مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، کمپنی کے حصص گرتے چلے گۓ، کمپنی میں سرمایہ کاری کم ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ کمپنی کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے ایک ایسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کا فیصلہ ہوا جس کے بارے میں موجودہ سی ای او نے ماضی میں قرض لینے یہ خودکشی کرنے کو ترجیح دینے کا بیان دیا تھا۔
معیشت کے جادوگر نے قرض لینے میں بھی اتنی دیر کردی تھی کہ اسے بھی عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا اور اس فیصلے کا پتہ اسے سوشل میڈیا کے ذریعے چلا۔
معیشت کے زبانی جادوگر کو ہٹانے کے بعد ایک ایسے "غیر منتخب ماہر" کو لایا گیا جو پرانی مینجمنٹ کے ساتھ بھی کام کر چکا تھا اور اسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے معاملات کا اور کمپنی کو چلانے کا بھی پرانا تجربہ تھا۔
بہرحال بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے کڑی شرائط پہ معاہدہ ہوگیا اور قرض کی قسطیں آنا شروع ہو گئیں، مگر ان شرائط کی بنیاد پہ کمپنی کا سکّہ مزید بے قدر ہوا، مہنگائی بڑھتی چلی گئی، لوگوں کی زندگی مشکل تر ہوتی چلی گئ، "چوروں " کے زمانے کی دی گئی "چھوٹ" کو ختم کردیا گیا، "محصولات" کو بڑھا دیا گیا کہ قرض کی شرط تھی، تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں کو پر لگ گۓ، عام آدمی کی زندگی مشکل تر ہوتی گئی اور سی ای او کی موجودگی تک بڑھتا ہی رہا۔
جب پرفارمنس کا سوال پوچھا جاتا تو یہ ہی بتایا جاتا کہ پہلے والے چور تھے، جب پوچھا جاتا کہ لوٹی دولت کب اور کیسے واپس آۓ گی تو کمپنی کے قانون کے رکھوالوں کو مورد الزام ٹھرایا جاتا۔ صرف خزانہ ہے نہیں، کمپنی کے زیرانتظام چلنے والے دوسرے ڈپارٹمنٹس کا حال بھی دگرگوں تھا؛ سب سے بڑے ڈپارٹمنٹ کا مینیجر جو کہ سیکھنے کے مرحلے میں تھا کچھ نہ سیکھ سکھا اور ڈپارٹمنٹ کے مالی، انتظامی اور قانونی امور بری طرح متاثر ہونے لگے۔
امن و امان کے مسائل پیدا ہونے شروع ہو گۓ، مگر نام کے پہلے حروف کے یکساں ہونے کی وجہ سے مینیجر کو بچایا گیا اور ڈپارٹمنٹ کے کلیدی انتظامی عہدیداروں کی قربانیاں دی جانے لگیں مگر "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"۔
سی ای او کی خواہش پر پرانی مینجمنٹ بمعہ سربراہ کے جیلوں میں بند کر دیا گیا مگر "نہ کہیں جنازہ اٹھا، نہ مزار بنا"۔ اور الزامات ثابت نہ ہونے پر ایک ایک کر کے باہرآتے گئے۔ مالی اور انتظامی بگاڑ کے ساتھ ساتھ کمپنی کے معاملات سی ای او اور ٹیم کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کمپنی کے تعلقات دوسری کمپنیوں سے بھی خراب ہوتے چلے گئے، یہاں تک کے وہ کمپنیاں جو مفت یا ادھار خام مال فراہم کرتی تھیں انہوں نے بھی انکار کرنا شروع کر دیا، حتیٰ کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ان کمپنیوں میں جا کے معاملات سمبھالنے پڑے۔ سی ای او کی ایک خوبی یہ بھی تھی کے اسے لگتا تھا کہ وہ سب جانتا ہے اور اسے کسی مشورے کی ضرورت ہے نہیں جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات ایسی باتیں کر جاتا کہ بعد میں اسکی ٹیم کو وضاحتیں دینی پڑتیں۔
کمپنی میں بد انتظامی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی چلتی رہی مگر سی ای او کے ہینڈسم ہونے اور سوشل میڈیا کنٹرول کی وجہ سے اسے زیادہ نہ اچھالا گیا، یوں مہنگی بھی بڑھتی چلی گئی لوگوں کی قوت خرید بھی کم سے کم ہوتی گئی، طرز زندگی بعد سے بعد تر ہوتا گیا اور الزام پرانے لوگوں کی کرپشن پہ ڈالا جاتا رہا۔
آزادی اظہار بس سی ای او کی تعریفوں تک محدود ہوتا گیا اور اگر کوئی تنقید کردے تو اسے سب سے پہلے غدّار اور پھر اخلاق سے گرے ہوۓالقابات سے نوازا جاتا۔ کمپنی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے خزانے کو ایک اور "غیر منتخب اور آزمودہ ماہر" کے حوالے کیا گیا مگر حالات نا سنبھلنے تھے اور نا سنبھلے۔ اس ہی دوران سی ای او اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے درمیان بھی فاصلے بڑھتے چلے گئے اور اتحادی اراکین نے بھی ساتھ چھوڑنا شروع کردیا اور بالاخر سی ای او کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
عہدے سے ہٹتے ہی سابقہ سی ای اونے تمام تر ملبہ کسی بیرونی سازش پہ ڈال دیا اور یوں سڑکوں پہ نکل آیا؛ اپنے دور کی پرفارمنس کو دبا کر سازش کا بیانیہ اختیار کر لیا۔ اور اب اگر کوئی پرفارمنس کا سوال پوچھ لے تو اسے غدّاری کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی القابات سے بھی نواز دیا جاتا ہے، ہاں مگر کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی پرفارمنس کا جواب دیتا ہے بس ایک سازش کا بیانیہ ہے جو دکھ رہا ہے اور بک رہا ہے۔
نوٹ: یہ ایک غیر سیاسی کالم ہے، کسی قسم کی مماثلت پہ لکھاری ذمے دار نہ ہوگا۔