1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Danish Hanif/
  4. Kahani Aik Achkan Ki

Kahani Aik Achkan Ki

کہانی ایک اچکن کی

یہ کہانی ہے ایک اچکن کی، جی ہاں ایک اچکن کی، جیسے ہمارے وطن میں شادی کی تقریب کے لئے شیروانی کی حیثیت ہے، ویسے ہی حلف برداری کے لئے اچکن کی ہے۔ ویسے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شیروانی اور اچکن الگ الگ لباس ہیں۔ دونوں میں بنیادی فرق لمبائی، کپڑے کا میٹریل اور کمر کہ نیچے سے حد کا ہوتا ہے۔ یوں تو اچکن ہمارے قومی لباس کا حصّہ بھی ہے، مگر اس ہی طرح جس طرح اردو ہماری قومی زبان ہے۔ شادی کے بعد شیروانی اور حلف برداری کے بعد اچکن اپنے پہننے والے کی یاد میں الماری میں بند، آنسو بہاتی رہتی ہے کہ کب وہ اسے دوبارہ پہننے کا شرف بخشے مگر پاکستان میں ایک سے زائد بار شیروانی اور اچکن پہننے کا شرف یا تو قسمت والوں کو ملا کرتا ہے یا "شریفوں " کو۔

مگر ہمارا موضوع سخن وہ اچکن ہے جسے کوئی بہت شدومد سے پہننا چاہتا تھا مگر کم و بیش 25 سال تک یہ موقع نہ مل سکا۔ یہ اچکن نوے کی دہائی کے آخر میں سلوائی گئی تھی مگر پہننے کا موقع نہ مل سکا۔ اس کے بعد یہ موقع اکیسوی صدی کے اوائل میں ملا مگر بھائی کی محبت یا ڈر نے اچکن سے دور رکھا۔ اس ک بعد اچکن پہ گرد کی تہیں دبیز تر ہوتی چلی گئیں۔ بلاخر پانامہ نے ایک دفعہ پھر اچکن سے قریب تر کیا، ناپ تک درست کرالی گئی، مگر شومئی قسمت کہ اس دفعہ بھی نرگس کو اپنی بے نوری پہ رونا پڑا۔

2018 کے سیاسی و غیر سیاسی سونامی سے تبدیلی کی جو لہر اٹھی اس لہر نے اچکن کی الماری پر تالا لگانے پہ مجبور کر دیا، اور اس کی جگہ قیدی کا لباس بھی کافی عرصے تک پہننا پڑا۔ تبدیلی کی ہوا کے رخ کو بدلنے کے لئے ستمبر، 2020 میں "کل تبدیلی مخالف" اتحاد بنا اور پیٹ پھاڑنے، سڑکوں پر گھسیٹنے والے شیر و شکر ہو گۓ۔ اچکن کی الماری کا تالا کھولا گیا، گرد کو جھاڑا گیا مگر پھر کچھ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوۓ اور یہ غیر فطری اتحاد قائم رہتے ہوۓ بھی قائم نہ رہ سکا۔ دھرنے بھی ہوتے رہے، جلسے بھی ہوتے رہے، دھمکیاں بھی چلتی رہیں مگر "جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم " کے مصداق تبدیلی کی ہوا قائم و دائم رہی۔

2021 کے ستمبر، اکتوبر میں حالات نے پلٹا کھایا اور تبدیلی کی کتاب کو "یکساں صفحے" کی سہولت میسّر نہ رہی، اور معاملات "نیوٹرل" ہو گۓ"۔ یکساں صفحے " کے سرورق کے تبدیل ہوتے ہی "کل تبدیلی مخالف" اتحاد کے مردے میں گویا جان سی پڑ گئی۔ پرانے گلے شکوے دور ہوۓ، مزاکرات کے طویل دور ہوۓ اور بلآخر تبدیلی کی ہوا کا رخ بدلنے کا انتظام شروع کیا گیا کہ

ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل

کل کی کیسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

اچکن ایک دفعہ پھر سے ڈرائی کلین کروائی گئی اور "کوہ گراں " کے "جان سے گزرنے" کا انتظار کیا جانے لگا۔ اس دوران وہ تمام "موسمی پنچھی" جو "یکساں صفحے" کی برکت سے تبدیلی کے حامی و ناصر تھے، وہ اڑاڑ کے "کل تبدیلی مخالف" اتحاد کی شاخوں پہ جا کے بیٹھنے لگے، کچھ پرانے پنچھی بھی اقتدار کا "روزہ افطار" کرنے کی باتیں کرنے لگے۔ ایسے میں اچکن کی آزمائش بھی شروع کر دی گئی، روز آئنے کے سامنےکھڑے ہو کر سائزکا بھی جائزہ لیا جاتا رہا، مگر تبدیلی کا سونامی "کوہ گراں " بن کر تاریخ پہ تاریخ دیتا رہا اور "کل تبدیلی مخالف" اتحاد کے صابر کا امتحان بھی لیتا رہا۔

"موسمی پنچھیوں " کو "آشیانے" بدلنے کی سزا دینے کے لئے منصفوں کے دروازے پہ دستک بھی دی جاتی رہی، یہاں تک کے "گنتی" کا دن بھی آ پہنچا، زمینی حقائق یہ ہی کہتے تھے کہ اب اچکن کے پہننے میں زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔۔ مگر شومئی قسمت کہ "گنتی" کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہے "سازش" قرار دے کر کالعدم کر دیا گیا اور "اچکن کے ارمان، آنسوؤں میں بہ گۓ"۔

گنتی کے عمل کے کالعدم ہو جانے کے بعد منصفوں نے "از خود" کاروائی شروع کردی۔ اور "کچھ آنسوؤں سے لکھے ہوۓ، کچھ آنسوؤں سے مٹےہوۓ" صفحات لے کر "کل تبدیلی مخالف" اتحاد نے بھی منصفوں کا دروازہ کھٹکا دیا۔ روزانہ کی بنیاد پہ سنوائی ہوئی اور بالاخر کالعدم کا حکم کالعدم قرار دے دیا گیا اور گنتی کی تاریخ مقرّر کر دی گئی۔

ایک طرف تو اچکن "آواز خلق" بننے لگی اور دوسری طرف "اچکن نہیں پہننے دونگا" کے دعوے کۓ جانے لگے۔ بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور گنتی کا دن آپہنچا۔ دونوں طرف سے زوردار تقریریں کی گئیں، ایک دوسرے کو "غدّاری" کے سرٹیفکیٹس دۓ گۓ، سازش کی بازگشت مزید iونچی ہوتی گئی۔ دن ڈھلتا گیا مگر گنتی نہ شروع ہو سکی، افواہیں پھیلتی گئیں، دارالحکومت میں خوف اور اندھیرے کے ساۓ گہرے ہوتے چلے گۓ۔

کسی کو بوٹوں کی آوازیں آئیں تو کسی کو سیاہ کوٹ نظر آۓ، قیدیوں کی گاڑیاں بھی چل پڑیں، ہیلی کوپٹر کی بھی باز گشت سنائی دینے لگی اور بالاخر گنتی ہو ہی گئی اور "کل تبدیلی مخالف" اتحاد نے اپنی اکثریت ثابت کر دی جس کے ساتھ ہی اچکن اور پہننے والے کے درمیان ساری دیواریں گر گئیں اور بالاخر اچکن پہن لی گئی۔ چوں کہ اچکن کے بٹن، سلائی، کپڑا وغیرہ میں "کل تبدیلی مخالف اتحاد" کا حصّہ ہے، اس لئے اسکی حفاظت کرنا جوۓ شیر لانے کے مترادف ہوگا، دیکھتے ہیں کہ یہ اچکن کتنے عرصے تک چلتی ہے۔

Check Also

Ulta Sinfi Kirdar

By Najeeb ur Rehman