Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Danish Hanif
  4. Bhooke Bhai, Pait Bhare Qatil, Behis Muashra

Bhooke Bhai, Pait Bhare Qatil, Behis Muashra

بھوکے بھائی ، پیٹ بھرے قاتل ، بے حس معاشرہ‎‎

قطع نظر اس بات سے کہ آپ امیر ہیں، غریب ہیں یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اگر آپ کا بچہ آپ کے سامنے بھوکا ہو اور کچھ کھانے کو مانگے تو آپ کیا کریں گے؟ جواب ہم سب کو پتہ ہے اور وہ یہ کہ ہم خود بھوکے رہ جائیں گے مگر اپنے بچے کو خالی پیٹ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ایک اور بات، اگر آپ کا بچہ بھوک سے بیتاب ہو کرآپ کے سامنےفریج سے یا کچن سے کچھ نکال کر کھا لے تو آپ کیا کریں گے؟ یقیننا آپ خوش ہوں گے کہ جگر گوشے کا پیٹ بھر گیا۔

کیا بھوک سے تنگ آ کر کچھ کھا لینے پہ آپ اپنی اولاد کو مار سکتے ہیں؟ کیا مار مار کہ اسے رلا سکتے ہیں؟ کیا اس پہ اتنا تشدد کر سکتے ہیں کہ وہ بیہوش ہو جاۓ؟ یا آپ اسے تشدد کرکر کے موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہوگا اور ہونا بھی چاہۓ کہ کون اپنی اولاد پہ یہ ظلم کر سکتا ہے؟ اور وہ بھی صرف پیٹ بھرنے کے جرم میں۔

اب بچہ تو بچہ ہے بےشک آپ کا نہ ہو، اسے بھوک بھی لگے گی اور پیٹ بھرنے کے لۓ کھانا بھی چاہۓ۔ لیکن اگر اس بچے کو بھوک کے ہاتھوں کھانا کھانے کے "جرم" کی پاداش میں مار مار کر موت کے منہ تک پہنچا دیا جاۓ یا موت کے گھاٹ ہی اتار دیا جاۓ تو آپ اور میں یہی سوچیں گے کہ کون سا ہمارا بچہ تھا، جو ہونا تھا ہو گیا، فکر کریں 17 جولائی کے ضمنی الیکشن کی، کون جیتے گا؟ کون ہارے گا؟ آئی ایم ایف قسط کب دے گا؟ دعا زہرہ کی اصل عمر کتنی ہے؟ شعیب اختر نے شیطان کو کنکریاں کتنی رفتار سے ماریں؟ کراچی کی بارشوں میں کتنا پانی جمع ہوا؟ سری لنکا میں کیا حالات چل رہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ کیوں کہ یہ ذیادہ ضروری معاملات ہیں، کسی بچے کی جان جاتی ہے تو جاۓ۔

اس تمہید کے بعد آتےہیں اس واقعے کی طرف جہاں کچھ روز قبل (غالبا عیدالاضحی والے دن) لاہور میں دو ملازم بھائیوں کو ان کے مالکان نے مبینہ طور پر فریج سے کوئی چیز نکال کر کھانے کے "جرم" میں بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتییجے میں ایک گیارہ سال کا بچہ جاں بحق ہو گیا اور ایک سات سالہ بچہ شدید زخمی ہوکر ہسپتال جا پہنچا۔ یہ بچے گزشتہ ایک سال سے اس گھر میں کام کر رہے تھے اور بلا شبہ نہایت غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جب ہی عید والے دن اپنے گھر اور گھر والوں سے کوسوں دور ایک اجنبی گھر میں میلے کپڑے پہنے گھر کی صفائی ستھرائی اور کام کاج میں مصروف تھےاوراپنے ہی جیسے بچوں کو نۓ نۓ کپڑوں میں ملبوس اور گھر والوں سے لاڈ اٹھواتا دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے کہ اللہ تو ان کا بھی وہی ہے جو ان بچوں کا ہے پھر یہ تفریق کیسی؟ وہ نا سمجھ قسمت اور تقدیر کے فلسفے سے نا آشنا بس پیٹ بھر کھانے کو ہی کو اچھی قسمت سمجھتے تھے۔

مگر وہ دل کے ساتھ ساتھ دماغ اور عمر کے حساب سے بھی بچے ہی تھے اور شدید بھوکے بھی اور اس ہی بھوک کے ہاتھوں مجبورہو کر انہوں نے فریج سے کچھ نکال کر کھا لیا اور یہ "جرم" ان کے لۓ پروانہ موت ثابت ہوا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اس تشدد میں پانچ افراد ملوث تھے، جن میں سےتادم تحریر دو "نورانی صورت" ملزمان گرفتار کر لۓ گۓ ہیں اور تین مفرور ہیں۔ تشدد کرتے ہوۓ ہاتھ، پاؤں، لاتیں، گھونسیں استعمال کۓ گۓ ہوں گے شاید ڈنڈے بھی استعمال کۓ گۓ ہوں کہ "جرم" ہی اتنا سنگین تھا۔ تشدد کے دوران بچوں کے ہاتھوں میں وہ چیز بھی دبی ہوگی اور پیٹ بھی کچھ ہی بھرا ہوگا کہ "جرم" کے دوران ہی پکڑے گۓ۔ اور عید والے روز جب میرے اور آپ کے بچے نۓ کپڑے پہنے، نعمتوں سے سجے دسترخوان پہ بیٹھے نخرے اٹھوا رہے تھے وہ بچے پیٹ بھرنے کے "جرم" میں شدید تشدد کا نشانہ بننے کے بعد ہسپتال لے جاۓ جا رہے تھے۔ نہ زمیں پھٹی، نہ آسمان، بس خاک وخوں میں نہا گۓ دو انساں۔

ایک لمحے کو ان بچوں کی جگہ ذرا اپنے بچوں کو رکھ کے سوچیں، یقیننا کلیجہ منہ کو آجاۓ گا۔ خدا کرے کسی کے دشمن کے ساتھ بی یہ سلوک نہ ہو مگر جن بچوں کے ساتھ ہوا وہ بھی ہمارے بچوں کی طرح ہی انسان ہی تھے۔ اور ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم امریکہ کو للکار رہے ہیں، دعا زہرہ کی اصل عمر جاننے کےلۓ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں، سری لنکا میں بغاوت کے حوالے دے دے کے انقلاب کی امیدیں لگا رہے ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے پہ سیر حاصل گفتگو کر کے خود کو ارسطو ثابت کررہے ہیں مگر ان بچوں کے انصاف کے لۓ خاموش بیٹھے ہییں۔

ٹھیک ہے، رہیں خاموش مگر ایک عہد کرلیں کہ آج کے بعد کم عمر بچوں کو کام پہ نہیں رکھیں گے اور اگر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لۓ چھوٹے بچوں کو رکھا ہوا ہے تو آج ہی انہیں اسکول میں داخل کروا دیں کیونکہ اگر وہ آپ کہ گھر پیدا ہونے کے بجاۓ کسی غریب گھرانے میں پیدا ہو گۓ ہیں تو اس میں ان معصوموں کا کوئی قصور نہیں ہے، ہیں تو وہ بچے ہی اور معصوم بھی۔ ان کی خواہشات بھی وہی ہیں جو آپ کے بچوں کی ہیں، بس فرق صرف قدرت کے فیصلے کا ہےجو کسی بھی طرح ہمیں یہ اختیار نہیں دیتا کہ ہم ان معصوموں کے خوابوں کو کچل دیں۔ ورنہ گیارہ سالہ کامران جب قیامت میں ہمارا گریبان پکڑے گا تو ہم نظریں بھی نہیں اٹھا پائیں گے اور یہبھی نہ کہہ پائیں گے کہ کامران ہم شرمندہ ہیں۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez