Imam Ahmad Raza Khan Aik Hama Jehat Shahsiat (9)
امام احمد رضا خان ایک ہمہ جہت شخصیت (9)

پروفیسر مسعود احمد پی۔ ایچ۔ ڈی۔ پرنسپل گورنمنٹ کالج مٹھی (سندھ)
فاضل بریلوی کے تبحر علمی اور مہارت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں "فاضل بریلوی نے علوم درسیہ کے علاوہ دیگر علوم و فنون کی تحصیل کی اور بعض علوم و فنون کی تو خود آپ کی طبع سلیم نے رہنمائی کی ایسے تمام علوم و فنون کی تعداد 54 ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے"۔
(1) علم قرآن (2) علم حدیث (3) اصول حدیث) (4) فقہ (جمیلہ مذاہب) (5) اصول فقہ (6) جدل (7) تفسیر (8) عقائد (9) کلام (10) نحو(11) صرف (12) معانی (13) بیان (14) بدیع (15) منطق (16) مناظره (17) فلسفه (18) تکبیر (19) هیئت (20) حساب (21) هندا شه (22) قرأة (23) تجوید (24) تصوف (25) سلوک (26) اخلاق (27) اسماء الرجال (28) سیر (29) تاریخ (30) لغت (31) ادب (32) ار شما طبقی (33) جبر و مقابله (34) حساب سینی (35) لوگارشمات (36) توقیت (37) مناظر و مرایا (38) اگر (39) زیجات (40)، مثلث کردی (41) مثلث مسطح (42) ہیئت جدیده (43) مربعات (44) حفر (45) زائرجه
مندرجہ بالا علوم کے علاوہ علم الفرائض - عروض و قوانی - نجوم - ادفاق - فنتاریخ (المداد) نظم و نثر فارسی - نثر و نظم ہندی۔ خط نسخ اور خط نستعلیق وغیرہ میں بھی کمال حاصل کیا۔ اس طرح فاضل بریلوی نے جن علوم وفنون پر دسترس حاصل کی۔ اس کی تعداد 45 سے متجاوز ہو جاتی ہے۔
ہمارے خیال میں عالم اسلام میں مشکل ہی سے کوئی ایسا عالم آئے گا جو اس قدر رفنون او علوم پر دستگاہ رکھتا ہو۔
(فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں از پروفیسر مسعود احمد مطبوعہ بارسوم مرکزی مجلس رضا لاہور صفحہ 69-70)
تحریر - تدریس - تقریر۔ یہ تینوں چیزیں ابلاغ در تبلیغ کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ فاضل بریلوی نے تحریر کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ تصنیف و تالیف میں گزرا۔
تقریر سال میں ایک دو ہی بار کیا کرتے تھے۔ وہ بھی محتاط انداز میں پورے عالمانہ وقار کے ساتھ۔ تین مواقع پر آپ کی تقریر خاص طور سے ہوا کرتی تھی۔
اولا - جلسه دستار بندی مدرسہ اہلسنت و جماعت مسجد بی بی پور محلہ بہاری پور - بریلی۔
ثانيا - 12 ربیع الاول شریف - بریلی شریف -
ثالثا - 18 ذی الحجہ عرس حضرت شیخ مولانا سید آل رسول مار مهروی قدس سره
پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان
عظیم پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ کی سائنسی تحقیقات کے معترف ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے تاثرات کا اظہار بھی فرماتے رہتے ہیں، آپ نے "روزنامہ جنگ" میں باقاعدہ ایک پورا کالم "فقید المثال مولانا احمد رضا خان بریلوی" کے عنوان سے تحریر کیا جس میں آپ اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لاتعداد سائنسی موضوعات پر مضامین و مقالے لکھے ہیں۔ آپ نے تخلیقِ انسانی، بائیوٹیکنالوجی و جنیٹکس، الٹراساؤنڈ مشین کے اصول کی تشریح، پی زوالیکٹرک کی وضاحت، ٹیلی کمیونیکشن کی وضاحت، فلوڈ ڈائنامکس کی تشریح، ٹوپولوجی (ریاضی کا مضمون)، چاند و سورج کی گردش، میٹرالوجی (چٹانوں کی ابتدائی ساخت)، دھاتوں کی تعریف، کورال (مرجان کی ساخت کی تفصیل)، زلزلوں کی وجوہات، مد و جزر کی وجوہات، وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنے دور کے فقیہ، مفتی، محدّث، معلم، اعلیٰ مصنف تھے"۔
(روزنامہ جنگ، 5 دسمبر 2016)
اعلی حضرت عظیم المرتبت امام عشق و محبت امام احمد رضا خان بریلویؒ کو علمائے عرب و عجم، قلم کاروں و دانشوروں نے بےشمار القابات و آداب سے آپ کو یاد فرمایا ہے ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔ عالم اہلسنت، امام و پیشوا، استاد معظم، یکتائے زمانہ، وقت کا یگانہ، صاحب تحقیق و تدقیق و تنفیح، علم و فضل کے دائر کا مرکز، حجۃ اللہ فی الارض، فخر السلف، بقیۃ الخلف، شیخ الاسلام و المسلمین، مجدد اعظم، شاہ ملک سخن، امام اہلسنت، عظیم العلم، موئید ملت طاہرہ، مجدد ملت حاضرہ محدث بریلوی، فقیہ العصر، سرتاج الفقہاء۔ "اعلیٰحضرت " کا لقب آپ کو سید وارث علی شاہ نے دیا تھا۔
(چہرہ والضحٰی از مولانا الہی بخش قادری، مطبوعہ غلامانِ قطب مدینہ، لاہور، صفحہ 105 / سوانح اعلیٰحضرت)
مجدد ماء ۃ حاضرہ
1318ھ بمطابق 1900ء کو پٹنہ کے مقام پر عظیم الشان فقید المثال جلسئہ عام میں آپکو علماء برصغیر ہند کی موجودگی میں "مجدد مائۃ حاضرہ" کا لقب دیا گیا جسکی تائید ہندوستان کے تمام علماء متفقہ طور پر کی۔ (سوانح اعلیٰحضرت)
مولانا حسنین رضا خان
مولانا حسنین رضا خان صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے ہم عمروں سے اور بعض بڑوں کے بیان سے معلوم ہواکہ وہ بدو (ابتدائے) شعور ہی سے نمازِ با جماعت کے سخت پابند رہے۔ گویا قبل بلوغ ہی وہ اصحاب ترتیب کے ذیل میں دخل ہوچکے تھے اور وقتِ وفات تک صاحب ترتیب ہی رہے اور ساتھ ہی محافظت روزہ اور نگاہ کی حفاظت فرمائے۔
(سیرت اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان، مطبوعہ کراچی۔ صفحہ 48)
جاری ہے۔۔

