1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Burhan Ul Haq/
  4. Hazrat Umar Farooq Ahadees Ki Roshni Mein

Hazrat Umar Farooq Ahadees Ki Roshni Mein

حضرت عمر فاروق احادیث کی روشنی میں

اس کائنات عالم میں چاہے کوئی کتنا ہی نیک بزرگ پرہیزگار ہو وہ حضور نبی کریم ﷺ کی مبارک صحبت میں چند لمحے ہی رہنے والی ایک صحابی کی شان کو نہیں پہنچ سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ ایک حدیث پاک میں ہے، میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے، ہدایت پاؤ گے۔

ان بزرگ شخصیات کی شان یہ ہے کہ رب ان سے راضی ہونے کا اعلان فرماتا ہے سورۃ التوبہ میں ارشاد ہے: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں، باغ جن کے نیچے نہریں ہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔ انہی عظیم الشان شخصیات میں ایک عظمت و رفعت والی شخصیت حضرت عمر فاروقؓ کی ہے۔

محترم قارئینِ کرام: خلیفۂ دوم، ناطق حق و صواب ابو حفص سیدنا عمر بن خطابؓ جنت کی اس عمومی بشارت کے باوصف خصوصی بشارت سے بھی سرفراز فرمائے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ پیام اسلام کو عام کیا، آپ کی زبان مبارک پر حق کو جاری فرمایا اور آپ کو حق و باطل کے درمیان وجہ امتیاز بنا دیا۔

سیدنا فاروق اعظمؓ کی ولادت باسعادت سے متعلق امام نوویؒ نے رقم فرمایا کہ آپ کی ولادت شریف عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی۔ وَقَالَ النَّوَوِیُ وُلِدَ عُمَرُ بَعْدَ الْفِیْلِ بِثَلَاثَ عَشَرَةَ سَنَةً۔ (تاریخ الخلفاء: ج1، ص43)

آپ کا نام مبارک "عمر" اور کنیت شریفہ "ابو حفص" اور لقب مبارک "فاروق" ہے۔ آپ کا نسب مبارک اس طرح ہے: سیدنا عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی۔

سیدنا امیر حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد 6 نبوی میں سیدنا فاروق اعظمؓ نے اسلام قبول کیا، اس وقت آپ کی عمر مبارک ستائیس (27) سال تھی۔

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: کہ عمرؓ اللہ کے نزدیک محبوب ترین تھے۔

(سنن الترمذی: 3681 وسندہ حسن، وقال الترمذی: "ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب")(تثبیت الامامۃ وترتیب الخلافۃ لابی نعیم الاصبہانیؒ، باب: ذِكْرُ دَعْوَةِ النَّبِيِّ (ﷺ)

(اَللّٰھُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ ھٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إلَیْکَ: بِأَبِيْ جَھْلٍ أَوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ)

اے اللہ! ان دو آدمیوں: ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک محبوب ہے، اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے یعنی اسے مسلمان کر دے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب عمرؓ نے اسلام قبول کر لیا تو ہم اس وقت سے برابر عزت میں (غالب) رہے۔ (صحیح بخاری: 3684)

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک دعا کے نتیجے میں مرادِ رسول امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطابؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ اَمِیْرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ کی عظمت و شان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ان خوش نصیب صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں شامل ہیں، جن کی فضیلت اور شان پر کئی فَرامینِ رسول مَوجُود ہیں۔ آپ کو بارگاہِ رسالت سے بے شمار ایسے فضائل عطا ہوئے جن میں آپ لاشریک ہیں۔

* نبیِّ کریم ﷺ نے آپ کو خود علم عطا فرمایا۔

(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب مناقب عمر۔۔ الخ، 2 / 525، حدیث: 3681ملخصا)

* نبیِّ کریم ﷺ نے آپ کے قبولِ اسلام کی دعا فرمائی۔

(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی مناقب ابی حفص۔ الخ، 5 / 383، حدیث: 3703)

* آپ کے قبولِ اسلام پر آسمان والوں نے بھی خوشیاں منائیں۔

(ابن ماجہ، کتاب السنۃ، فضل عمر، 1 / 76، حدیث: 103)

فاروقِ اعظمؓ کی محبت ایمان کی ضمانت ہے۔

(کنزالعمال، کتاب الفضائل، فضل الشیخین۔ الخ، 7 / 8، حدیث: 3611)

بے شک اگلی امتوں میں محدثون (جنہیں الہام و کشف حاصل تھا) ہوتے تھے اور اگر اس اُمت میں اُن میں سے کوئی (محدث) ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔

(بخاری کتاب الانبیاء، باب حدیث الغار برقم: 3465، وکتاب فضائل الصحابۃ باب مناقب عمر ؓ)

اے عمر! بے شک شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔

(سنن الترمذی: 3690 وقال: "ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب" اس کی سند حسن ہے)

دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

میں دیکھ رہا ہوں کہ جنات کے شیطان اور انسانوں کے شیطان سب (سیدنا) عمرؓ سے بھاگ گئے ہیں۔

(الترمذی: 3691، وقال: "ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب" وسندہ حسن)

آپ ﷺ نے سیدنا عمرؓ سے فرمایا:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے (عمر) ابن الخطاب! تُو جس راستے پر چل رہا ہے تو شیطان اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر بھاگ جاتا ہے۔

(صحیحُ البخاری: 3683 وصحیح مُسلم: 22/2396 وأضواء المصابیح: 6027)

ایک حدیث نبوی ﷺ میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

بے شک اللہ نے عمرؓ کے دل و زبان پر حق جاری کر رکھا ہے۔

(صحیح ابن حبان، موارد: 2184 وسندہ صحیح)

ایک اور حدیث میں ہے:

اِنَّ اللہَ ضَرَبَالْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلبِہ وَفِیْہِ لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْلَکَانَ عُمَرُ۔

(ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عمر بن الخطاب، رقم: 3682، 3686۔ حدیث حسن)

حضرت علی بن ابی طالبؓ فرمایا کرتے تھے ہم اس امر کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ عمرؓ کی زبان سے سکینت برس رہی ہے۔

(مسند احمد106/1) شرح السنہ البغوی برقم: 3877۔)

بعض اوقات سیدنا عمرؓ کی موافقت میں (آپ کی رائے کے مطابق) قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں جنہیں موافقاتِ عمر کہتے ہیں۔ دیکھئے صحیح البخاری (402، 4483 وصحیح مسلم (24/3391)

سیدنا عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔

(سنن الترمذی: 3686 وقال: "ھٰذا حدیث حسن غریب" اس کی سند حسن ہے)

نبی کریم ﷺ نے جنت میں سیدنا عمرؓ کا محل دیکھا تھا۔

(صحیح ُالبخاری: 5226، 7024 وصحیح مسلم: 20/2394)

آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے سیدنا عمرؓ کو جنتی کہا۔

(الترمذی: 3747 وسندہ صحیح)

: حضرت فضل بن عباسؓ روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

(المعجم الاوسط للطبرانی، بَابُ مَنِ اسْمُهُ إِبْرَاهِيمُ)"عُمَرُ مَعِي وَأَنَا مَعَ عُمَرَ وَالْحَقُّ مَعَ عُمَرَ حَيْثُ كَانَ"

"عمر میرے ساتھ ہیں اور میں عمر کے ساتھ ہوں اور حق عمر کے ساتھ ہوگا جہاں کہیں بھی ہو۔ "

حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا۔

"اہلِ جنت کے چراغ عمر بن خطاب ہیں۔ "

حضرت عمر فاروقؓ کی شان میں بے شمار آیات قرآنی اور احادیث مقدسہ ﷺ موجود ہیں اللہ ان شخصیات کے طفیل ہمارے اور ہمارے پیارے ملک کے حال پہ رحم فرمائے ملک پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرمائے اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر پہرہ دینے والوں کی حفاظت فرمائے آمین۔

اس مضمون میں اگر کہیں بھی کوئی کمی کوتاہی یا غلطی ہوگئی ہو تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں معافی کا طلبگار ہوں۔

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo