Beti Zehmat Ya Rehmat?
بیٹی زحمت یا رحمت؟
جس بچی کو زمانہ جہالیت میں رسوائی کا سامنا تھا بیٹی کی ولادت پر باپ کا کیا حال ہوتا تھا۔ بیٹی کی پیدائش کو وہ اپنے لیے ننگ و عار سمجھتا تھا اور لوگوں سے اپنا چہرہ چھپائے پھرتا۔ بالآخر اس کا یہ جھوٹا احساسِ شرمندگی اور ندامت اس کو اس شقاوت پر آمادہ کر لیتا تھا کہ وہ اس پیاری پھول جیسی بیٹی کو کسی گڑھے میں دبا دیتا اور اسے زندہ درگور کر دیتا تھا، پھر اپنے اس بہیمانہ و ظالمانہ فعل بد پر فخر کرتا تھا۔ اس بچی کو دین اسلام نے ہی بیٹی کی حیثیت سے مقام دیا۔ آپ ﷺنے اس بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔
نبی اکرم ﷺ نے یہ تعلیم دی کہ بیٹی کا باپ ہونا ہرگز موجبِ عار نہیں ہے، بلکہ موجبِ سعادت ہے۔ امام مسلمؒ نے اپنی صحیح مسلم شریف میں حضرت اَنس بن مالکؓ سے روایت بیان کی ہے:
صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح آئیں گے"۔ آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو ساتھ والی انگلی سے ملا کر دکھایا۔
صحیح مسلم ہی میں یہ روایت بھی ہے۔ "جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔ "
اسلام نے نہ صرف سماجی و معاشرتی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا جس حق سے اسے محروم رکھا جاتا رہا ہے ارشادِ ربانی ہے۔
"اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔ (القرآن، النساء، 4: 11)
آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بیٹی کی پیدائش کو نحوست قرار دیتے ہیں قرآن حکیم نے بیٹی کی پیدائش پر غم و غصے کو جاہلیت کی رسم اور انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اُس کی مذمت کی۔
"اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (بزعم خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے) خبردار کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں"۔ (القرآن، النحل، 16: 58، 59)
کہاں وہ عالم کہ معاشرہ بیٹی کا باپ ہونا باعثِ ننگ و عار اور شرم سمجھتا تھا، کہاں یہ عالم کہ اس معاشرے میں یہ بات دلوں میں پیوست ہوگئی کہ اگر کوئی بیٹیوں کی خوش دلی کے ساتھ، شفقت و محبت کے ساتھ پرورش کرتا ہے تو اُس کے لیے قیامت میں آنحضور ﷺ کی قربت اور نارِ جہنم سے نجات کی بشارت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بیٹیاں دیں۔ ایک نہیں، چار بیٹیوں کا باپ بنایا۔ جن کے دلوں میں بیٹوں کی حسرت ہو تو وہ دیکھ لیں نبی اکرم ﷺ کو، جو چار بیٹیوں کے باپ تھے۔ چاروں بیٹیوں کو آنحضور ﷺ نے نہایت محبت و شفقت کے ساتھ پرورش فرمایا ہے۔ اُن سے آپ ﷺ کو جو اُنس و محبت تھی وہ سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ کرنے والے ہر قاری کو معلوم ہوگا۔
خاص طور پر حضور ﷺ کو حضرت فاطمۃ الزہراءؓ سے جو پیار تھا اس کا یہ عالم تھا کہ جب وہؓ شادی کے بعد آنحضور ﷺ کی خدمت میں آتی تھیں تو نبی اکرم ﷺ ان کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے، ان کے لیے جگہ چھوڑ دیتے تھے، اپنی چادر انؓ کے لیے بچھاتے تھے اور اُس پر اُنؓ کو بٹھاتے تھے پھر آپ ﷺ اپنی بیٹی کے لیے "میرے جگر کا ٹکڑا" کے الفاظ استعمال فرماتے تھے۔
معاشر ے میں بیٹیوں کی پیدائش کو نحوست قرار دینے کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بیٹیوں سے نفرت کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس وجہ سے بیٹی کی پیدائش پر پریشان ہوتے کہ انکا نصیب کیسا ہوگا تو آپ لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جس اللہ نے بیٹی دی اس نے اسکا نصیب بھی بہترین لکھا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زیادہ نہیں پڑھاتے وجہ؟ وجہ یہ کہ اس نے تو بیگانے گھر چلے جانا ہمیں کونسا کما کر دینا ہے۔ یہ انتہائی غلط سوچ ہے خدارا بیٹی کو رحمت سمجھیں زحمت نہیں اسکی اچھی طرح پرورش کریں اگر آج آپ اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دلوائیں گے تو یہ آپکا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے گی۔
بیٹیوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ بیٹے بیٹیاں لاتے ہیں اور بیٹیاں بیٹے مطلب داماد لاتیں ہیں۔ ایک اہم وجہ جہیز ہے چونکہ یہ جہیز درمیانے طبقے کے لئے سب سے پریشانی والا عنصر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ان کی بیٹی کی شادی کے لیے انکے پاس کوئی وسائل نہیں ہوتے۔ جہیز صرف ایک نحوست ہے، والدین اپنی خوشی سے جو چاہیں دے سکتے ہیں لیکن مجبور کرنا یا رسم و رواج بنا دینا بالکل درست نہیں۔ "ہاں! بیٹی نہیں بلکہ جہیز ایک لعنت ہے، اور جہیز کی روایت کو ضرور ختم کرنا چاہئیے"۔
ہمیں اپنی سوچ کو وسیع کرنے کی ضرورت آج بھی ہے ورنہ ہم میں اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
ارے بیٹی تو دل کا سکون ہوتی ہے
بیٹی گھر کی رونق ہوتی ہے
بیٹی تو دل کا چین ہوتی ہے
بیٹی تو ربّ کی رحمت ہوتی ہے
بیٹی تو ربّ کی عطا ہوتی ہے
بیٹی تو باپ کا مان ہوتی ہے
بیٹی تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے
پھر کیوں لوگ بیٹی سے نفرت کرتے ہیں؟