Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Burhan Ul Haq/
  4. Allama Iqbal Aur Ishq e Mustafa

Allama Iqbal Aur Ishq e Mustafa

علامہ اقبال اور عشق مصطفےٰ ﷺ

عشق، عشق عربی زبان میں گہری چاہت و محبت کو کہتے ہیں۔ عشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ جذبہ بناوٹ، عیاری، امید، لالچ و حرص سے پاک ہوتا ہے۔ یہ جذبہ انسان کو ایک لمحے میں اس بلندی اور آفاقیت تک لے جاتی ہے۔ اس قوت سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے۔ اور اسی جذبہ کے تحت ایمان باالغیب پر یقین آ جاتا ہے۔

سرِ دلبراں میں رقم ہے کہ "عشق ایک مقناطیسی کشش ہے جو کسی کو کسی کی جانب سے ایذا پانا، وصال سے سیر ہونا، اس کی ہستی میں اپنی ہستی کو گم کر دینا یہ سب عشق و محبت کے کرشمے ہیں"۔

عاشقی چیست؟ بگو بندہ جاناں بودن

دل بدست دگرے دا دن و حیراں بودن

حضور ﷺ سے عشق۔

جب یہ تعلق یا کشش سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ سے ہو تو پھر وہ عشق بیو کمال حاصل کرتا ہے۔ ان کی ہستی تو ایک بحر ذخائر کے مانند ہے ایسا بحر کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں، ایسا بحر کہ جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ جس کی تعلیمات محبت و الفت، اخوت و مساوات، بردباری اور رواداری کا درس دیتی ہیں۔ جو لوگوں کو حیات نو عطا کرتی ہیں۔ جن کے اخلاق کے بارے ربّ کائنات فرماتا ہے کہ "اے حبیب (ﷺ) بے شک تو اخلاق کے بلند درجے پر ہے"۔

جن کو نبوت سے پہلے امین اور صادق کے خطاب سے نوازا گیا اقبال کو اس عظیم ہستی سے عشق تھا اور اس آفتاب کے نور سے مفکر پاکستان عاشق صادق قلندر لاہوری رحمہ اللہ کی شاعری منور و مزین ہے۔

می ندانی عشق و مستی از کجا ست؟

ایں شعاع افتاب مصطفیٰ ست

مولانا عبدالسلام ندوی "اقبال کامل" میں لکھتے ہیں: "ڈاکٹر صاحب کی شاعری محبتِ وطن اور محبت قوم سے شروع ہوتی ہے اور محبت الہٰی اور محبت رسول پر اس کا خاتمہ ہوا"۔

محبت مصطفےٰ ﷺ عین ایمان ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث مبارکہ سے اطاعت و اسوۂ رسول ﷺ کی اہمیت و فضیلت معلوم ہوتی ہے۔

ارشاد ربانی ہے: فرما دیجئیے، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کریگا اور تمھارے گناہوں کو بخشے گا۔ (آل عمران)۔

متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی محبت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ بخاری و مسلم کی مشہور حدیث ہے: تم میں سے کوئی بھی ایمان میں اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت اسکے دل میں اسکے باپ، بیٹے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر نہ ہو جائے۔

قرآن کریم کی انہی آیات اور سیرت پاک کے گہرے مطالعہ نے علامہ اقبال کو ایک سچا عاشق رسول بنایا۔ ایک ایسا عاشق رسول کہ اسم محمد ﷺ سنتے ہی جن کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی شروع ہو جاتی۔ اقبال کو حضور ﷺ سے جو والہانہ عشق و محبت ہے اس کا اظہار اس کی اردو اور فارسی کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ اقبال کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں مدح رسول اکرم ﷺ کو ایک نئے اسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا۔

خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا

خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا

شاعری کا مرکز و محور:

علامہ اقبال کی شاعری نے اپنی شاعری کا مرکز و محور عشق رسول ﷺ ہی کو بنایا۔ انہوں نے نہ صرف عشق رسول کا درس دیا بلکہ آپ خود بھی سچے اور پکے عاشق رسول ﷺ ہیں۔ انہوں نے محبت رسول ﷺ کی تعلیم و تربیت اپنے والدین سے حاصل کی۔

والد صاحب کی کمال تربیت:

علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "رموز بیخودی" میں ایک واقعہ لکھا کہ "ایک دفعہ کوئی سائل بھیک مانگتا ہوا ان کے گھر کے دروازے پر آ کھڑا ہوا اور باوجود یہ کہ اسے کئی بار جانے کے لیے کہا گیا، وہ اڑیل فقیر ٹلنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اقبال ابھی عنفوان شباب میں تھے۔ اس کے بار بار صدا لگانے پر انہیں طیش آ گیا جس کی وجہ سے جو کچھ اس کی جھولی میں تھا، زمین پر گر کر منتشر ہوگیا۔ والد ان کی اس حرکت پر بےحد آزردہ ہوئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

فرمایا، قیامت کے دن جب رسول اللہ ﷺ کے گرد غازیانِ اسلام، حکماء، شہداء، زہاد، صوفیہ، علماء اور عاصیانِ شرمسار جمع ہوں گے تو اس مجمع میں اس مظلوم گدا کی فریاد آنحضور ﷺ کی نگاہِ مبارک کو اپنی طرف مرتکز کر لے گی اور آنحضور ﷺ مجھ سے پوچھیں گے کہ تیرے سپرد ایک مسلم نوجوان کیا گیا تھا تاکہ تو اس کی تربیت ہمارے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کرے۔

لیکن یہ آسان کام بھی تجھ سے نہ ہو سکا کہ اس خاک کے تودے کو انسان بنا دیتا، تو تب میں اپنے آقا و مولا کو کیا جواب دوں گا؟ اتنا ظلم نہ کر اور خدارا میرے مولا ﷺ کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کر۔ تو تو چمن محمدی ﷺ کی ایک کلی ہے، اس لیے اسی چمن کی نسیم سے پھول بن کر کھل، اور اسی چمن کی بہار سے رنگ و بو پکڑ، تاکہ آنحضور ﷺ کے اخلاق کی خوشبو تجھ سے آسکے۔ "

حرام اشیاء سے اجتناب:

علامہ اقبال عملی زندگی میں بھی سیرت رسول ﷺ اور احکام رسول ﷺ پر عمل پیرا رہے اور حرام کو ہمیشہ ترک کرتے۔ ایک دفعہ ان کو دردِ گردہ کی شدید تکلیف ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے نہ معلوم کس بنا پر کھانے کے بعد "برانڈی کا ایک پیگ" بطور دوا تجویز کیا لیکن حضرت علامہ نے اس سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا: "قیام یورپ کے دوران بھی جس چیز کو میں نے کبھی منہ نہ لگایا، اب اس معمولی سی تکلیف کے لیے کیسے استعمال کر سکتا ہوں، اور میں تو موت سے بچنے کے لیے بھی کسی حرام چیز کا سہارا لینے کا روا دار نہیں ہو سکتا۔ " اس کے بعد وہ کافی عرصے تک دردِ گردہ کی شدید تکلیف برداشت کرتے رہے۔ لیکن کبھی بھی "برانڈی کے پیگ" کا نسخہ استعمال کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ آخر حکیم نابینا کے علاج سے گردوں کی پتھری پیشاب کے ساتھ تھوڑی تھوڑی کر کے خارج ہوگئی۔

شاعری میں اسمائے مصطفےٰ ﷺ کا استعمال:

علامہ اقبال نے محبت رسول ﷺ اور عشق مصطفیٰ ﷺ کا اظہار اپنے اشعار میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اردو شاعری میں انہوں نے خاتم النبییّن حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو متعدد اسماء سے یاد کر کے آپؐ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ محمد، احمد، مصطفیٰ، دانائے سبل، ختم الرّسل، مولائے کل، اول، آخر، قرآں، فرقاں، یٰسیں، طٰہٰ، رسول، رسول عربی، نبی مرسل، شہِ یثرب۔

مولائے یثرب، رحمۃ للعالمین، رسول عربی، رسول ہاشمی، رسول امیں، رسول مختار، نبی عفت، حضورِ رسالت مآب، حضور سروَرِ عالم، صاحبِ مازاغ، صاحبِ یثرب، مدفونِ یثرب، امیر عرب، بدر و حنین کے سردار، رفعت شان، رفعنا لک ذکرک اور بہت سے اسماء مبارک پر مشتمل اشعار زبان زد عام ہیں۔ ان اسماء اور القاب مبارک کے استعمال سے جہاں علامہ اقبال کی شاعری کو جلا ملی وہاں علامہ اقبال کا عشق مصطفےٰ ﷺ بھی واضح ہوتا ہے۔

اشعار میں لفظ محمد ﷺ کا استعمال:

رسول اللہ ﷺ کا پیارا رسیلا اسم مبارک "محمد ﷺ" کو علامہ اقبال نے استعمال کیا ان میں سے چند اشعار بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں

علامہ اقبال کا یہ شعر زبان زد عام ہے:

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

احمد نام کا استعمال:

حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک اسم مبارک "احمدؐ" ہے۔ علامہ اقبال نے اس اسم کے ساتھ ملت کا لفظ جوڑ کا استعمال کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں ـ:

عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی

اُمت احمد مرسلؐ بھی وہی، تو بھی وہی

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو

ملت احمد مرسلؐ کو مقامی کر لو

لفظ مصطفیٰ ﷺ کا استعمال:

دین کے اتمام کے لیے علامہ اقبال نے بہت پیارے نام اسم مبارک "مصطفیٰؐ" سے اپنے کلام کو شان بخشی۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

اگر قبول کرے، دینِ مصطفیٰ، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

ختم نبوت ﷺ اور علامہ اقبال:

علامہ اقبال نے ختم نبوت ﷺ کو بھی شاعری میں موضوع بنایا۔ حضور نبی اکرم ﷺکے ختم نبوت کو اشعار میں یوں استعمال کیاَ:

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے

ملّتِ ختمِ رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

دیگر اسماء النبی ﷺ کا اشعار میں استعمال:

علامہ اقبال نے کچھ اور اسماء النبی ﷺ بھی اپنے اشعار میں جابجا استعمال کیے ہیں۔ چند امثال پیش خدمت ہیں:

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

عشق مصطفے کا درس:

اقبال اپنے اردو اور فارسی کلام میں اس حقیقت کا شدت سے اظہار کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کے افراد کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عشق محمد کا جذبہ ہی ہے جو دل مسلم کو قوی تر کرتا ہے اور اسے حرارت اور سوز سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ چناں چہ ملت کی حالت زار دیکھ کر ان کی نظر بارگاہ رسالت کی طرف اٹھ جاتی ہے، فرماتے ہیں۔

شيرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد

آيات الہي کا نگہبان کدھر جائے

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبال کے پیغام کو عام کیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں میں عشق رسولؐ کی شمع روشن کریں۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے امت مرحومہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال کی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنا نور بصیرت آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل کر دے۔

خدایا! آرزو میری یہی ہے

مرا نورِ بصیرت عام کر دے۔

Check Also

Aik Parhaku Larke Ki Kahani

By Arif Anis Malik