Wednesday, 18 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Peeru

Peeru

پیرو

شام کے 5 بجکر 10 منٹ۔ پرانی انار کلی میں واقع ہوٹل سن رائز کے سیکنڈ فلور پر کمرہ نمبر 201 میں مغرب کی طرف کھلنے والے جھروکے کے عین سامنے صوفہ کرسی پہ میں ساکت بیٹھا ہوا ہوں۔ میرے ہاتھ میں آزاد مہدی کا ناویلا "پیرو" ہے جس کے کل ملا کر 176 صفحے میں نے دو گھنٹوں میں پڑھ ڈالے ہیں اور میرے دل میں دکھ اور اداسی نے گھر کرلیا ہے المیوں سے بھرپور اس کہانی نے مجھے پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

میں کبھی کبھار پرانی انار کلی کے بازار پر نظر ڈال لیتا ہوں۔ انار کلی میں اب صرف مسلمان بستے ہیں اور دن ڈھل چکا ہے۔ سورج غروب ہوچکا ہے اور قریب اور دور واقع مساجد سے مغرب کی اذانیں سنائی دے رہی ہیں لیکن کہیں سے مغربین والوں کی اذان بلند ہوتی نظر نہیں آ رہی لگتا ہے کہ آس پاس کوئی "ان" کی مسجد نہیں ہے۔ دو اذانیں صلوات و سلام کے ساتھ اور ایک اس کے بغیر سنائی دیتی ہے جو ان کے فرقوں کی پہچان کراتی ہے۔ میں نے لاہور میں کبھی نہ مندروں کی گھنٹی سنی نہ کلیسا کے گھڑیالوں کی آواز، نہ بھجن نہ کسی گوردوارے سے گرنتھ صاحب کی پڑھے جانے کی آواز۔ یہ سب سن سنتالیس میں شاہ عالمی کے جل کر راکھ ہوجانے کے ساتھ دم توڑ گئی تھیں۔

لاہور کا مذھبی تنوع بھی اس کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا تھا۔ انار کلی میں باری علیگ کا مکان گرا کر ایک پلازہ بنایا گیا ہے اور وہاں ایک ہوٹل و ریستوران بن گیا ہے۔ زمیندار ہوٹل کی جگہ گوگا نقیبہ چنے نان کی دکان بن ہوئی ہے۔ کھانے پینے کی دکانیں ہیں یا پھر گارمنٹس کی۔ پورے بازار میں کتابوں کی ایک دکان بھی ہی نہیں۔ شروع میں ایک اخبار و رسائل و جرائد کا پھٹا لگا ہوا جس کی وسعت کم ہوتی جا رہی ہے اور وہ بھی ساتھ لنڈے کے کپڑے فروخت کرنے لگا ہے۔ کریں گے اہل نظر نئی بستیاں آباد ہونے والا معاملہ ہے اور یہ "نظر" کیسی ہوگی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

گزشتہ روز آزاد مہدی میرے پاس سن رائز ہوٹل آئے۔ ہم ہوٹل کے گراونڈ فلور پر رکھے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ وہ بہت عاجزی اور انکسار سے مجھے اپنا ناول خرید لینے پر اصرار کر رہے تھے۔ حالانکہ میں نے ان کے ہاتھ میں پکڑے اس ناول کے تین کل تین نسخے ان سے لیکر سامنے میز پہ رکھ دیے تھے جو اس بات کا اشارہ تھے کہ میں وہ تینوں نسخے ان سے خرید چکا۔ وہ راوی کے کنارے واقع شاہدرہ کے محلے ککا زئی کی تنگ گلی سے پروفیسر شہزاد شیزی کی موٹر سائیکل پر لفٹ لیکر پہنچے تھے اور بار بار مجھے کہہ رہے تھا سنا رہے تھے کہ ان کے ناول کے 15 نسخے عامر رانا نے اسلام آباد منگوائے تھے اور پیسے جاز کیش کے ذریعے بھیج دیے تھے۔ میں دل ہی دل میں ان کے ان کی جھجک اور شرم پر مسکرا رہا جو انھیں حرف مدعا زبان پر لانے سے روک رہے تھے۔ میں نے تھوڑا ان کے صبر کا مزید امتحان لیا اور پھر جیب سے تین نسخوں کے پیسے نکال کر ان کی طرف بڑھا دیے۔ اس موقع پر جو اطمینان ان کے چہرے سے جھلک رہا تھا اس نے مجھے نہال کردیا۔

آزاد مہدی مجھے پہلے اپنے اس ناول "پیرو" کا پلاٹ، کہانی، کردار سنانے کو بے تاب دکھائی دیے لیکن میں نے انھیں روک دیا کہ میرا مزا خراب نہ کریں۔ میں ناول پڑھ لوں گا۔ پسند آیا تو اس پر ضرور تبصرہ لکھوں گا۔

پھر وہ مجھے اپنے دوسرے ناول کا تھیم سنانے لگے جس میں کچھ اردو کے پروفیسر ادیبوں اور شاعروں سے اس ناول کے مرکزی کردار راول سے ٹاکرا ہونے اور ان کے بارے میں راول کے کاٹ دار جملوں کا بیان بھی تھا۔ نام لیے بغیر انہوں نے اس ناول میں لاہور کے کچھ بڑے نامور ادب کے استادوں کی آتما رول دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا لیکن میں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ انھیں ناول میں لانے کی بجائے ہر ایک کا خاکہ لکھیں اور ان خاکوں کا نام "آج کے گنجے فرشتے" رکھیں۔

یہ تجویز ان کے دل کو لگی اور انہوں نے اس ٹاسک کو مکمل کرنے کا عزم کرلیا۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ جدیدیت، مابعد جدیدیت، نو آبادیات و مابعد نو آبادیات کے باب میں اردو کے ایک نامور پروفیسر کے سراپے پر ان کے طنزیہ جملوں نے اس پروفیسر کے شاگردوں کو برافروختہ کردیا تھا اور انھوں نے اسے خوب برا بھلا کہا اور ایسے میں جب "آج کے گنجے فرشتے" منظر عام پر آئی تو نجانے ان سے کیسا سلوک ہوگا؟ میں نے کہا کہ وہ کسی کی پرواہ نہ کریں ان کی منٹو سے کم ہی تذلیل و تضحیک ہوگی لیکن ان کا یہ کام سالوں یاد رکھا جائے گا۔

وہ مجھے کہنے لگے کہ اکادمی ادبیات نے معاصر ناول نگاروں کی ایک فہرست تیار کی ہے جن پر ایک خصوصی شمارہ مرتب کیا جا رہا ہے اور ان میں ان کا نام بھی شامل ہے۔ پھر کہنے لگے کہ ان کا ایک افسانہ اکادمی ادبیات کے نئے آنے والے شمارے میں چھپ رہا ہے اور انھیں اختر سلیمی کا فون آیا تھا جو ان کے افسانے کی بہت تعریف کر رہے تھے۔

انھوں نے مجھے "پیرو" کے پنجابی ترجمے کی خبر بھی سنائی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور نے ان کے ناول پیرو کی تقریب پذیرائی بھی منعقد کی تھی اور اب وہ بھی میری ناول نگاری کو مان گئے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے مجھے بتایا کہ جی سی یونیورسٹی اور دیال سنگھ کالج کے بی ایس اردو، ایم فل کے طلباء و طالبات ان کے ناولوں پر تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں۔

اس سے مجھے احساس ہوا کہ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ احساس شدت سے بیٹھا ہوا کہ وہ جس سطح کے فکشن نگار ہیں اس سطح کی پذیرائی ان کو نہیں مل رہی۔ سچی بات ہے مجھے ان کی اس نفسیاتی گرہ پر تھوڑا ترس بھی آیا۔

آزاد مہدی سے یہ میری دوسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات میں انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کا دوسرا ناول زیر تکمیل ہے اور اس دوران انھوں نے مجھے یہ بھی بتانے کی کامیاب کوشش کی تھی کہ وہ فکشن کیسے لکھتے ہیں۔ دوسری ملاقات میں بھی وہ شعور یا غیر شعوری طور پر یہی کوشش کر رہے تھے۔

میں نے آزاد مہدی کا ناول "پیرو" پڑھا تو وہ مجھے اپنے فن ناول نگاری کی بلندیوں کو چھوتے نظر آئے۔ یہ ناول مجھے کبھی تو آنا کارینیا کی یاد دلاتا رہا تو کبھی "مادام باواری" کی تو کبھی "بوڑھا گوریو" کی اور اس میں جن ذلتوں کا ذکر تھا وہ مجھے دستوفسکی کی یاد دلاتا رہا۔ جزئیات نگاری اور کردار نگاری میں وہ مجھے روسی ناول نگاروں کے ہم پلہ لگے۔

ان کا ناول ہئیت اور بیانیہ دونوں اعتبار سے بہت مضبوط اور کسا ہوا ناول ہے کہیں بھی بھی ایک جملہ تو کیا ایک لفظ بھی زائد یا فالتو معلوم نہیں ہوتا۔ جملوں کی کاٹ کے تو کیا کہنے۔ اپنی اس صلاحیت کے اعتبار سے وہ مجھے ہندوستان اور پاکستان کے سب ہی معاصر ناول نگاروں میں منفرد نظر آتے ہیں۔

اس ناول میں مجھے بس ایک کمزوری نظر آئی اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنا مذھبی اور فرقہ وارانہ رجحان یا تو چھپا نہیں پائے یا انھوں نے اسے چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایک جگہ تو نرے فرقہ پسند تعبیر کے خوگر ہی بن گئے۔ میں ان کے اس فقرے کو یہاں لکھ کر ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال ایسی جانبداری جو فرقہ پرستی کی حدوں کو چھونے لگے ان جیسے کمال فکشن نگار کو زیب نہیں دیتی۔ اس فقرے نے ان کے بہت بڑے کینوس کے ناول کو خوامخواہ گہن لگا دیا ہے۔ ایک فرقے کے پڑھنے والے تو شاید اس سے خوش ہوں گے اور انھیں بہت سارے قاری بھی مل جائیں گے لیکن وہ ان کی فکشن نگاری کا کمال نہیں کہلائے گا۔ میں اگر اس ناول کا ایڈیٹر ہوتا وہ جملہ اس ناول کے متن سے حذف کر دیتا۔

"میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کونسی ڈش کتنے دن؟ کتنے گھنٹے؟ کتنے منٹ، کتنے سکینڈ بے غیرت رکھے گی؟ ذائقہ کے جنوں میں انگلیاں چاٹنا آسان ہے مگر ہاتھوں کا وقار جاتا رہتا ہے۔۔ یہاں سے بھی ایک راستا بے غیرت کو جاتا ہے کیونکہ بے شرمی کبھی باہر سے نہیں آتی بلکہ سہولتوں کی پیدا کی گئی سستی سے آتی ہے"۔

"میں نے تمہیں کب کہا تھا میرا پیٹ دمشق کے پیٹو سے ملتا ہے، میرا دستر خوان بڑا ہو اور بیت المال کے سارے تالے توڑ دو! اکیلے میرے پیٹ کی خاطر۔۔! اگر ابو زر اعتراض کرتا ہے تو کرنے دو! "۔

"ہمیں تو ہماری ماں نے زیادہ کھانے سے منع کیا ہے۔ کہتی تھی، "تمہارا پیٹ علی کے پیٹ جیسا ہونا چاہیے۔ اس طرح تمہارے نوالے میں کسی اور کا نوالہ نہیں ہوگا۔ بلکہ تم اپنا نوالہ بھی کسی بھوکے کو کھلا دو گے"۔ وہ ہمارے بدن پر ضمیر کی مالش کرتی تھی۔ تاکہ میرے بچوں کی روح قوت والی ہو"۔

آزاد مہدی کے اس ناول میں ہم "کمینوں" کی بہت سی قسموں سے متعارف ہوتے ہیں اور اس ناول میں عورتیں ہمیں مختلف کرداروں میں نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر صفیہ اس کی بیوی کا کردار اور استحصال کی بیٹی کا کردار اور ان کے مکالمے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ زندہ اور مردہ ضمیر لیے کرداروں کی ایک انجمن اس ناول میں موجود ہے اور سماجی حقیقت نگاری اس ناول میں اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ یہ ناول شاہدرہ اسٹیشن پر اپنے کلائمکس کو چھو لیتا ہے۔ اس اسٹیشن پر ہمیں پیرو کے واسطے سے جن کرداروں سے سامنا ہوتا ہے وہ ہمارے دیکھے بھالے ہیں لیکن جیسے انھیں آزاد مہدی نے تخلیق کیا اور ان کی کی نفسیاتی کیفیت، ان کی کردار نگاری اور ان سے جو مکالمے ادا کرائے وہ ان کے فن کی ہمیں داد دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بیانیے مل کر ایک بڑا بیانیہ تشکیل دیتے ہیں اور پورے سماج کی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ سماجی حقیقت نگاری میں انھوں نے ادبی جمالیات کو جیسے سمویا ہے یہ ان ہی کا خاصا ہے اور معاصر ناول نگاروں میں چند ہی ہیں جو ان کے اس فن اور تکینک کے برابر پہنچ پائے ہوں گے۔

"ہمارے پاگل خانوں میں غیرت کے مریضوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ زیادہ تر دولت کا خسارہ اٹھانے والے، محرومی کا شکار اور محبت میں ناکامی کے صدمات سے وابستہ مریض ہیں۔ ہمیں تحلیل نفسی کرتے ہوئے غیرت کے مریضوں کو الگ کرنا ہوگا تاکہ معلوم ہوسکے کہ وطن عزیز میں باضمیر ہونے ک تناسب کتنا رہ گیا ہے؟ شاید پیرو اکیلا ہی اس مرض میں مبتلا پایا جاتا ہے"۔

"جب کالم نویسوں کے جلتے ہوئے کالموں پر نظر پڑی تو فوراََ دو قدم پیچھے ہوکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا "میں خوشامد کی آگ ہرگز نہیں تاپوں گا"۔ پھر بچوں سے کہنے لگا "ان کے دھوئیں سے بچو! بے ضمیر ہوجاو گے! پھر کیا سے کیا کہنے والے بن جاوگے"۔

میں ہر اس نوجوان کو یہ ناول پڑھنے کا مشورہ دوں گا جو اپنے ضمیر کو زندہ اور روح کو طاقتور رکھنا چاہتا ہے۔

Check Also

Ammi Chali Gayeen

By Mubashir Aziz