Youthiye Na Hote To
یوتھیے نہ ہوتے تو
میں نے پاکستان میں ہمیشہ بڑے اداروں میں کام کیا جہاں بڑی حد تک جاب سیکورٹی تھی۔ معراج رسول کا ادارہ، ایکسپریس، جنگ، جیونیوز، سب جگہ پکی نوکری تھی اور ہر بار خود استعفا دے کر آگے بڑھا۔ امریکا آتے ہوئے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ وی او اے کی ملازمت ختم ہوئی تو کیا کروں گا، لیکن ایک دن وہ نوکری چھوٹ گئی۔
میرے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا۔ عالمی وبا نئی نئی شروع ہوئی تھی اور زور چل رہا تھا۔ اوبر چلانی پڑی۔ بیس کورسز کیے اور چھ سو کمپنیوں میں اپلائی کیا۔ میرے پاس ایکسل شیٹ ہے جس میں ان چھ سو کمپنیوں، آسامیوں اور انھیں درخواست بھیجنے کی تاریخ درج ہے۔ بمشکل تیس پینتیس نے جواب دیا۔ پندرہ سترہ انٹرویو ہوئے۔ مختلف اوقات میں معمولی تنخواہوں کی تین آفرز آئیں جو میں نے قبول کرلیں۔ ماسٹرز کرنے اور تین سال سے زیادہ عرصہ ٹھوکریں کھانے کے بعد نیا کرئیر شروع کرسکا۔
کئی بار میں نے سوچا کہ اگر پاکستان میں جاب چھوٹ جاتی تو کیا کرتا؟ وہاں اس وقت بھی کم از کم دس دوست مختلف اداروں میں ڈائریکٹر نیوز لگے ہوئے ہیں۔ گمان ہے کہ دوسری جاب جلدی مل جاتی۔ سیلری میں کمی بیشی ہوسکتی تھی۔ لیکن اگر میڈیا میں جاب نہ ملتی تو کیا کرتا؟ ایک یونیورسٹی میں دو سیمسٹر پڑھائے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آخرکار ٹیچنگ ہی کو اپنانا پڑتا۔
اب ان دوستوں کی طرف دیکھتا ہوں جنھوں نے میرے امریکا آنے اور خان کی حکومت قائم ہونے کے بعد جرنلزم کا بدترین وقت دیکھا۔ بہت سے صحافیوں اور دوسرے کارکنوں کی نوکریاں گئیں۔ ادارے بند بھی ہوئے۔ جن کی ملازمتیں برقرار رہیں، انھیں خطرہ بہرحال محسوس ہوا ہوگا۔ کئی اداروں میں، جن میں جیو بھی شامل ہے، تنخواہیں کم کی گئیں۔
بے یقینی اور مہنگائی کے دور میں صحافی کیا بیچے؟ گھر کیسے چلائے؟ مستقبل کیسے محفوظ بنائے؟
کچھ صحافی مشکل وقت میں یوٹیوبر بن گئے۔ مطیع اللہ جان جیسے نامور، سچے اور بے باک صحافی ان میں شامل ہیں۔ لیکن ہر شخص مطیع اللہ جان نہیں ہوتا۔ ہر رپورٹر کو ایکسکلوسو خبریں نہیں ملتیں۔ ہر صحافی کے پاس اندر کی کہانی نہیں ہوتی۔
یوٹیوبرز کو، جن میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، ٹیبل اسٹوریز گھڑنا پڑیں۔ اب بھی گھڑ رہے ہیں۔ میں انھیں برے فکشن میں شمار کرتا ہوں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی نہیں ہے۔ یہ عوام تک سچ پہنچانے کا مشن نہیں ہے۔ یہ پیٹ کا دوزخ بھرنے، بجلی کا بل ادا کرنے اور بچوں کی فیس دینے کی جدوجہد ہے۔
آسمانی قوتوں کا یوٹیوبرز پر لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس ملک میں یوتھیے موجود ہیں جو دن و رات سستے سے سستا جھوٹ دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں اور ہمارے دوستوں کو ہزاروں لاکھوں ویوز اور ڈالر مل جاتے ہیں۔ یوتھیے نہ ہوتے تو ہمارے عزیز دوست ابراہیم راجا کیا کرتے، صدیق جان اور طارق متین جیسے باولے تو بھوکے مرجاتے۔