Tareekh
تاریخ
بار بار احساس ہورہا ہے کہ اچھے بھلے، پڑھے لکھے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل، سنجیدہ دوستوں نے بھی تاریخ نہیں پڑھی۔ نہ صرف تاریخ نہیں پڑھی بلکہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ تاریخ ہوتی کیا ہے۔
آج بھی ایک سوال یہ کیا گیا کہ میں ایک مذہبی کردار ابراہیم کا انکار کرتا ہوں تو دوسری مذہبی شخصِت حسین اور کربلا کو کیوں نہیں جھٹلاتا۔
چلیں، باریک باتیں رہنے دیتے ہیں کیونکہ وہ بوجھل ہوجائیں گی۔ موٹی موٹی باتیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ماضی کے دو ادوار ہیں۔ ایک وہ جب انسان لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ دوسرا وہ جب لکھنا سیکھ لیا اور تاریخ لکھنے کا آغاز کیا۔
زمانہ قبل از تاریخ کے واقعات اور کرداروں کی تصدیق تردید ماہرین آثار قدیمہ اور سائنس دان کرسکتے ہیں۔ اس تحقیق کے چند اصول اور طریقے ہیں۔ جیسے ایگزوڈس کی مثال ہے۔ مذہبی قصوں کے مطابق موسی اپنی قوم کے لاکھوں افراد کو لے کر مصر سے کنعان کی طرف نکلے۔ ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں، ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کیونکہ اتنی بڑی ہجرت کے آثار رہ جاتے ہیں، جو نہیں ملے۔
اب اس تاریخ کی بات کرتے ہیں جو پانچ ہزار سال سے لکھی جارہی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ہزاروں سال میں ہر خطے کے ہر واقعے کی تفصیل دستیاب ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
جہاں کی تاریخ موجود ہے، اس کے درست اور مبالغہ آمیز ہونے کے بھی کچھ پیمانے مقرر ہیں۔ ایک سے زیادہ حوالے ہوں تو تاریخ میں جان پڑجاتی ہے۔ کئی حوالے متضاد بیانات فراہم کرتے ہوں تو سوالات باقی رہ جاتے ہیں۔ کئی حوالے ایک ہی واقعے کی تصدیق کرتے ہیں تو اسے اسی طرح تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ مورخوں کی مہارت اور تعصب کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
عہد نامہ قدیم، جس میں توریت اور زبور شامل ہیں، ڈھائی سے تین ہزار سال پرانا ہے۔ عہد نامہ جدید یا انجیل ڈیڑھ سے دو ہزار سال پرانا ہے۔ قرآن چودہ سو سال قدیم ہے۔ ان سب میں اختلافات ہیں۔ آپ جس مذہب کے ماننے والے ہیں، اس کی کتاب پر ایمان رکھیں۔ لیکن تاریخ داں غیر جانب داری سے صرف تاریخی واقعات میں دلچسپی لیتا ہے۔ وہ کسی ایسے واقعے کو تاریخ کی کتاب میں درج نہیں کرتا جو مذہبی کتاب میں موجود ہو لیکن کسی اور ذریعے سے اس کی تصدیق نہ ہورہی ہو۔
کربلا ابھی چودہ سو سال پرانا واقعہ ہے۔ جو واقعات ہم تک پہنچے ہیں، ان میں بہت مبالغہ ہے۔ بہت سا جھوٹ بعد میں شامل کیا گیا۔ لیکن یہ کہنے کے لیے کافی ڈھٹائی چاہیے کہ امام حسینؑ نام کا کوئی شخص نہیں گزرا یا کربلا کا واقعہ ہوا ہی نہیں۔
عہد نامہ قدیم میں جن افراد کے نام ہیں، ممکن ہے کہ وہ سب واقعی وجود رکھتے ہوں، لیکن تاریخ میں کئی کے شواہد نہیں ملتے۔ یہ ایسا ہے کہ کسی شہر میں کوئی واقعہ ہوا لیکن اخبار نے رپورٹ نہیں کیا۔ رپورٹ نہ کیے جانے سے واقعے یا اس کے کردار مٹ نہیں جاتے، لیکن بہرحال اخبار میں ان کا ذکر بھی نہیں ملے گا۔
ابراہیم اور موسی، عین ممکن ہے کہ حقیقی افراد ہوں لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ تاریخ میں ان کا وجود نہیں ملتا۔
کیا میں بات سمجھا سکا ہوں؟