Soofi Sahab (2)
صوفی صاحب (2)
سچ یہ ہے کہ صوفی صاحب صلح کل آدمی ہیں۔ مذہب کو کبھی برا نہیں کہا لیکن بے حد سادگی سے تاریخی سچائیاں بیان کردیتے تھے۔ میرا زندگی بھر کا مطالعہ ایک طرف اور صوفی صاحب کی مختصر گفتگو ایک طرف۔ وہ اپنے وسیع مطالعے کا خلاصہ کردیتے تھے۔ یا تو میں اتنا سمجھ دار تھا کہ اس خلاصے اور اختصار سے حقائق جان گیا، یا اس قدر احمق ہوں کہ سیدھی باتوں کا الٹا مطلب سمجھا۔ بہرحال میرا دماغ روشن کرنے والوں میں جوش، جون ایلیا، نیاز فتح پوری، جلالپوری، کارل سیگان، رسل، ہاکنگ وغیرہ کے ساتھ صوفی صاحب کا نام بھی شامل ہے۔
لیکن ایک دن ہم جیو میں بیٹھے گفتگو کررہے تھے کہ انھوں نے کہا، میں ذرا نماز پڑھ آوں۔ میں ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ صوفی صاحب آپ نماز پڑھتے ہیں؟ ہاں میاں پڑھتا ہوں۔ اچھا، کہاں جارہے ہیں؟ سڑک پار جماعت اسلامی کی مسجد ہے۔ وہاں جارہا ہوں۔ لیکن وہیں کیوں؟ بھئی آج کل مسجدوں میں دھماکے بہت ہورہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی مسجد میں دھماکا نہیں ہوتا۔ وہ ان خطرات سے پاک ہے۔
دو بار ایسا ہوا کہ میں نے صوفی صاحب کو رنجیدہ کیا۔ ایک بار ایکسپریس میں اور دوسری بار جیو میں۔ میں ایکسپریس میں ان کا نائب تھا۔ یعنی جس دن وہ دفتر نہیں آتے تھے تو میں کام سنبھالتا تھا۔ ایک دن میں نے انھیں بتایا کہ میری بہن کی شادی ہوئی ہے اور اتوار کو ولیمے کی تقریب ہے۔ میں نہیں آسکوں گا۔ اس سے چند ماہ پہلے میری اپنی شادی ہوچکی تھی۔ میں چھٹیاں زیادہ کررہا ہوں گا۔ صوفی صاحب سمجھے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ انھوں نے میری چھٹی مسترد کردی۔ میں اس دن دفتر آگیا اور تقریب میں نہیں گیا۔ لیکن اگلے دن ولیمے کے کارڈ کے ساتھ اپنا استعفا ایڈیٹر نیر علوی کو پیش کردیا کیونکہ مجھے ملازمت صوفی صاحب نے دلوائی تھی اور میں اسپورٹس ڈیسک پر مزید کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ علوی صاحب نے صوفی صاحب کو بلایا اور ان کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی۔ صوفی صاحب کی سفارش پر استعفا مسترد کرکے مجھے نائٹ ڈیسک پر ٹرانسفر کردیا گیا۔
اس کے بعد بہت دنوں تک صوفی صاحب خفا رہے اور ہماری بات چیت نہیں ہوئی۔ پھر پہلے میں جنگ گیا اور کچھ عرصے بعد وہ جیو آگئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے میری ملازمت کی کوششیں شروع کیں اور زور لگاکر مجھے جاب دلوادی۔ ہم سب کچھ بھلا کر پھر ساتھ کام کرتے رہے۔ وہ بہت یادگار دن تھے۔ لیکن پھر انصار نقوی نے "سازش" تیار کی۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے دبئی جاکر کام کرنا چاہیے جہاں سے ان دنوں مین بلیٹن کی نشریات چلتی تھیں۔ لیکن صوفی صاحب مجھے بھلا کیوں جانے دیتے۔ اتفاق سے وہ چند دن کی چھٹی پر گئے تو انصار بھائی نے راتوں رات میرا ویزا نکلواکر دبئی بھیج دیا۔ صوفی صاحب چھٹی سے واپس آئے تو میں دبئی پہنچ چکا تھا۔
سچ یہ ہے کہ اگر مجھے صوفی صاحب کو "دھوکے" دینے کا افسوس ہوا تو دوسری جانب انھوں نے بھی بعد میں اعتراف کیا کہ انھیں ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان "دھوکوں" کی وجہ سے میرا کرئیر بہت تیزی سے آگے بڑھا اور میں نے کچھ اچھی بری شہرت کمائی۔ اگر کچھ اچھا کام کیا تو صوفی صاحب کا سکھایا ہوا تھا۔ کچھ بھنڈ مارے تو وہ اپنی ذاتی صلاحیتیں تھیں۔
چار سال بعد دبئی اسٹیشن کا سارا اسٹاف پاکستان واپس آگیا اور کراچی سے نشریات چلنے لگیں۔ لیکن میں اسپورٹس ڈیسک کے بجائے مین بلیٹن کا پروڈیوسر رہا اور ترقی کرتا کرتا کنٹرولر آوٹ پٹ بن گیا۔ میرے سامنے تو انھوں نے نہیں کہا لیکن میں نے دوسروں سے سنا ہے کہ جنگ فورم کے اکرم خان کے ساتھ اپنے شاگردوں میں وہ میرا نام لیتے تھے۔ میری کامیابیوں پر خوش ہوتے ہوں گے، تبھی نام لیتے ہوں گے۔
امریکا آنے سے پہلے میں نے صوفی صاحب کو بتایا کہ جیو سے رخصت ہورہا ہوں اور بیرون ملک جارہا ہوں۔ انھوں نے تھوڑا سا ہنسی مذاق کیا۔ پوچھا کہ باہر جاکر کیا کرو گے۔ میں نے جیو میں دو تین لوگوں کے سوا کسی کو اصل منزل نہیں بتائی تھی۔ لیکن صوفی صاحب سے نہیں چھپا سکتا تھا۔ انھیں احوال بتایا۔ انھوں نے کہا کہ اچھا کررہے ہو۔ جتنا سخت لکھ رہے ہو اور جس رخ پر جارہے ہو، اس سے بہتر ہے کہ باہر چلے جاو۔
شاید آپ یقین نہ کریں کہ امریکا آنے کے بعد سات سال میں ایک بار بھی صوفی صاحب سے بات نہیں ہوئی۔ میں نے دسیوں بار فون ملایا، واٹس ایپ کے علاوہ ڈائریکٹ نمبر پر بھی کال کی لیکن انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔ وائس آف امریکا کے دنوں میں مجھے خبروں کے لیے اور پھر اپنے ریڈیو پروگرام کے لیے ماہرین سے بات کرنا پڑتی تھی۔ اپنے پروگرام میں ماجد بھائی اور اسپورٹس کے دوسرے لوگوں سے کئی بار لائیو کال پر گفتگو کی۔ صوفی صاحب کو بھی ٹرائی کرتا تھا۔ ان کا نمبر وہی تھا لیکن نہ میسج کا جواب دیتے تھے اور نہ کال اٹھاتے تھے۔
وائس آف امریکا کی ملازمت ختم ہونے کے بعد میں مشکلات میں گرفتار تھا۔ اوبر چلائی، یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، چھ ماہ گھر سے دور جارجیا میں بھی رہا۔ ان مصروفیات کے دوران پاکستان میں رابطے بالکل ختم ہوگئے۔ کبھی سال چھ مہینے میں پرانے دوستوں یا کولیگز سے رابطہ ہوتا تو صوفی صاحب کی خیریت لے لیتا۔
لیکن چند دن پہلے عجیب واقعہ ہوا کہ میرے فون پر صوفی صاحب کی کال آئی۔ رات کا وقت تھا اور میں سو رہا تھا۔ بیدار ہونے کے بعد ان کا نمبر دیکھا تو فورا کال ملائی۔ لیکن ایک بار پھر وہی نتیجہ نکلا۔ انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔
دو دن بعد فیس بک پر دیکھا کہ پریس کلب میں صوفی صاحب کے اعزاز میں تقریب ہوئی ہے۔ اس میں ممتاز ٹیسٹ کرکٹرز اور سینئر صحافیوں نے شرکت کی۔ صوفی صاحب کی تصویریں دیکھ کر ایک جھٹکا لگا۔ وہ کافی کمزور لگ رہے تھے اور شاید وہیل چئیر پر تھے۔ مجھے خیال آیا کہ سات سال بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ وہ پہلے بھی معمر تھے لیکن متحرک ہونے اور دفتر آنے کی وجہ سے ہمیں اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ میں نے ماجد بھائی کو کال ملائی۔ انھوں نے تصدیق کی کہ صوفی صاحب کی طبعیت کچھ عرصے سے اچھی نہیں۔ یادداشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ انھوں نے صوفی صاحب کے بیٹے فواد کا نمبر دیا۔
فواد نے بہت خوشی سے بات کی اور مجھے اطمینان دلایا کہ صوفی صاحب کمزور ضرور ہیں لیکن بیمار نہیں ہیں۔ بزرگی کی وجہ سے بھولے بھولے سے ضرور ہوگئے ہیں۔ لیکن پرانے لوگ، پرانی باتیں سب یاد ہیں۔ انھوں نے صوفی صاحب سے بات بھی کرادی۔
صوفی صاحب نے فون پر حتی المکان کوشش کی کہ جس شخص سے وہ بات کررہے ہیں، اسے اندازہ نہ ہوپائے کہ وہ اسے پہچان نہیں پارہے۔ میں نے پوچھا، کیسی طبیعت ہے۔ انھوں نے کہا، اچھا ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟ میں نے کہا، ماجد بھائی سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا، ہاں ہوتی ہیں۔ میں نے پوچھا، منظر بھائی ملنے آتے ہیں۔ انھوں نے کہا، نہیں وہ نہیں آتے۔ میں نے پوچھا، کیا مصروفیات ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ فی الحال کوئی کام نہیں کررہا۔ کام کی تلاش ہے۔ پھر جب انھوں نے کہا، بھئی ملاقات ہونی چاہیے تو تو میرے دل کو کچھ ہوا۔ یہ ان کا مخصوص انداز تھا۔ انھیں یاد نہیں رہا کہ میں امریکا آچکا ہوں اور ملاقات اتنی آسان نہیں۔
فون پر بات کرتے ہوئے مجھے اپنے بڑے ماموں یاد آئے۔ الزائمر کا شکار ہونے کے بعد کسی وقت وہ اپنے بچوں کو بھی پہچان نہیں پاتے تھے۔ ایک دن امریکا سے ان کے بیٹے نے فون کیا تو انھوں نے کہا، دیکھو بھئی کسی تصور صاحب کا فون ہے۔ صوفی صاحب نے بھی آخر میں فواد صاحب کو فون دے کر کہا، لیں اب ان سے بات کرلیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم دفتر میں گھنٹوں ساتھ ہوتے تھے اور بغیر تھکے باتیں کرتے رہتے تھے۔ اس بار وہ چند منٹ میں تھک گئے۔
میں شراب نہیں پیتا کہ اپنے دماغ کو قابو میں رکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی ڈر لگتا ہے کہ بڑھاپا جوان ہوگا تو کیا بنے گا۔ ڈیمنشیا یا الزائمر ہوا تو میں نے طوفان کھڑا کردینا ہے۔ جانے کیا کیا اول فول بکوں گا اور کتنا غل غپاڑہ کروں گا۔
صوفی صاحب اس نسل کے نمائندے ہیں جس کے بزرگ سب کچھ بھول جائیں تو بھی اپنی تہذیب نہیں بھولتے۔ کسی اجنبی سے بھی بات کریں گے تو آپ جناب سے کریں گے۔ سلام سے آغاز کریں گے، خیریت دریافت کریں گے۔ کوئی اپنا مسئلہ بیان کرے گا تو ہمدردی کا اظہار کریں گے۔ کوئی خوشی کی بات کرے گا تو ساتھ ہنسیں گے۔ محبت کا جواب محبت سے دیں گے۔ غصے یا ناراضی کے اظہار کو خاموشی سے نظرانداز کردیں گے۔ رخصت ہوتے وقت یا کال کے آخر میں دعا دیں گے۔
میں صوفی صاحب کا شاگرد ضرور ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ لیکن اقبال جرم کرتا ہوں کہ ان جیسا صحافی نہیں بن سکا اور ان جیسا آدمی بھی نہیں بن سکا۔