Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Soofi Sahab (1)

Soofi Sahab (1)

صوفی صاحب (1)

مبشر، میرے تمھارے جیسے لوگوں کے لیے پاکستان میں صحافت کرنا آسان نہیں۔ تم نے اچھا کیا کہ آغاز میں ہی اسپورٹس رپورٹر بن گئے۔ بس اب ادھر ہی رہنا۔ مجھے یہ نصیحت کرئیر کے آغاز میں صوفی صاحب نے دی تھی۔ میں نے اس پر عمل نہیں کیا اور پھر خمیازہ بھگتا۔

سید محمد صوفی صحافت میں میرے پہلے اور آخری استاد ہیں۔ سیکھا بہت سے لوگوں سے، ان میں بڑے نام بھی شامل ہیں۔ لیکن صوفی صاحب والی بات کسی میں نہیں تھی۔ انھوں نے ایسے سکھایا جیسے باپ اپنے بچے کو سکھاتا ہے اور میں نے بھی ایسے سیکھا جیسے بیٹا باپ سے سیکھتا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ بیٹا کبھی کبھی باپ کی نافرمانی بھی کرتا ہے۔

صوفی صاحب سے پہلی ملاقات سنہ 95ء میں ہوئی لیکن میں ان کا نام سات آٹھ سال پہلے سے جانتا تھا۔ وہ اخبار وطن کے ایڈیٹر تھے اور میں اس پرچے کو باقاعدگی سے خریدتا تھا۔ مجھے ان کی سلیس اور رواں تحریر کی ایسی پہچان ہوگئی تھی کہ کسی مضمون پر ان کا نام نہ ہوتا تو بھی پہچان جاتا۔ غالبا مارچ 88ء کے اخبار وطن میں ایک تحریر چھپی جس کا عنوان تھا، کرکٹ پنڈت۔ وہ مضمون منیر حسین کے ایما پر انگریزی کرکٹر کے ایڈیٹر گل حمید بھٹی کے خلاف لکھا گیا تھا۔ اقبال قاسم کی آپ بیتی پہلے قسط وار چھپی اور بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ سکندر بخت کی آپ بیتی بھی قسط وار چھپی۔ وہ سب صوفی صاحب کا کمال تھا۔

صوفی صاحب نے ریڈیو کے پروگرام اسپورٹس راونڈ آپ کے لیے بھی کام کیا۔ بعد میں اخبار وطن سے جنگ چلے گئے۔ میں نے سنہ 95ء میں کرکٹ ریکارڈز کی کتاب مرتب کی تو پہلی کاپی ملتے ہی جنگ کی طرف بھاگا۔ استقبالیے پر جاکر کہا، اسپورٹس رپورٹر عبدالماجد بھٹی سے ملنا ہے۔ انھیں کتاب دینا چاہتا تھا تاکہ اگلے دن خبر چھپ جائے۔ ماجد بھائی اس وقت دفتر میں نہیں تھے۔ کرکٹ کی کتاب کا ذکر سن کر صوفی صاحب آگئے جو ان دنوں جنگ کے اسپورٹس ایڈیٹر تھے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ جس شخص کو اتنے سال سے پڑھ رہا تھا، ان سے ملاقات ہوگئی۔ یہ اتفاق سہی لیکن میں نے اپنی پہلی کتاب کی پہلی کاپی صوفی صاحب کو دی تھی۔

صوفی صاحب میرے نام اور کام سے واقف ہوگئے۔ ماجد بھائی سے بھی ملنا جلنا ہوگیا۔ میرے اسپورٹس آرٹیکل ادھر ادھر چھپتے تھے۔ میں نے کچھ عرصہ اسپورٹس ٹائمز نام کے ہفت روزہ میں بھی کام کیا۔ بیروزگار ہوا تو صوفی صاحب اور ماجد بھائی سے ملنے گیا۔ صوفی صاحب کسی زمانے میں امن میں کام کرچکے تھے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہاں میرے لیے بات کریں گے۔ لیکن پھر جنگ میں ملازمت نکلی۔ انھوں نے گروپ ایڈیٹر محمود شام سے میری ملاقات کروائی۔ شام صاحب نے پوچھا، آپ نے ایم اے کیا ہے؟ میں نے کہا، نہیں۔ شام صاحب نے پوچھا، مستقبل میں کرنے کا ارادہ ہے؟ صوفی صاحب میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے تھے۔ انھوں نے مجھے کہنی ماری۔ میں نہیں سمجھا۔ صاف کہہ دیا، نہ فیس کے پیسے ہیں، نہ ماسٹرز کرنے کا ارادہ ہے۔ شام صاحب نے معذرت کرلی۔ باہر نکل کر صوفی صاحب نے ڈانٹا کہ ایک ہاں کردینے سے ملازمت مل جاتی۔ بعد میں ماسٹرز کرتے، نہ کرتے، کون پوچھتا۔ وہ میری زندگی کے بدترین دنوں میں سے ایک تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ بعد میں زندگی کا بڑا حصہ جنگ گروپ میں کام کرتے ہوئے گزاروں گا۔

خوش قسمتی سے کچھ عرصے بعد لیکسن گروپ کے لاکھانی صاحب نے اخبار نکالنے کا سوچا اور جنگ سے کئی سینئر صحافیوں کو اچھی پیشکش دے کر بلالیا۔ ان میں صوفی صاحب شامل تھے۔ انھوں نے جنگ کے انٹرویو میں میری حماقت بھلادی اور مجھے ایکسپریس بلالیا۔ مجھے لکھنا اور ترجمہ کرنا آتا تھا، اسپورٹس مضامین چھپ چکے تھے، ٹی وی پر کوئز شو جیت چکا تھا، کتاب شائع ہوچکی تھی اور کھیلوں کے ہفت روزہ میں کام کرچکا تھا۔ یہ سب درست، لیکن کسی روزنامے میں کام نہیں کیا تھا۔ ڈیلی جرنلزم مختلف کام ہوتا ہے۔ کم وقت ہوتا ہے اور ڈیڈلائن کے اندر معیاری کام ڈلیور کرنا پڑتا ہے۔ وہ سب مجھے صوفی صاحب نے سکھایا۔

ایکسپریس ابتدا میں آٹھ صفحات کا اخبار تھا اور کالموں تک کا صفحہ نہیں تھا لیکن کھیلوں کا پورا صفحہ تھا۔ اس وقت تک کسی اردو اخبار میں، حد یہ کہ جنگ میں بھی کھیلوں کی خبروں کا پورا صفحہ نہیں ہوتا تھا۔ بمشکل چند خبریں بقیا کے صفحے پر چھپتی تھی۔ ایکسپریس میں پورا صفحہ اسپورٹس کو دینے کا فیصلہ تو ہوگیا لیکن وسائل نہیں تھے۔ یہ سنہ 98ء کی بات ہے۔ تب تک ایکسپریس کے پاس کسی انٹرنیشنل ایجنسی کی سروس نہیں تھی۔ صرف اے پی پی اور پی پی آئی تھیں جو دن میں اسپورٹس کی دو تین خبریں بھیجتی تھیں۔ ہمارے واحد رپورٹر عبدالرشید شکور تھے جو بہت زیادہ کام کرتے تھے۔ لیکن پھر بھی ایک رپورٹر کتنی خبریں فائل کرسکتا ہے۔ تب میں نے وہ کام کیا جو اس وقت تک کسی پاکستانی اخبار میں نہیں ہورہا تھا۔

میں نے صوفی صاحب کو انٹریٹ کے بارے میں بتایا۔ میرے پاس سوپرنیٹ کا اکاونٹ تھا۔ اس سے انھیں کرک انفو کی ویب سائٹ دکھائی جو تب تک نان پرافٹ تھی۔ اس وقت اسپورٹس ویب ڈوٹ کوم کے نام سے ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو بعد میں بند ہوگئی۔ اس پر دنیا بھر کی اسپورٹس خبریں پوسٹ کی جاتی تھیں۔ میں نے صوفی صاحب سے کہا کہ لاکھانی صاحب کی اپنی آئی ایس پی سائبرنیٹ ہے۔ اگر وہ ہمیں ایک اکاونٹ فراہم کردیں تو ہم ایک کے بجائے اسپورٹس کے دو صفحے بناسکتے ہیں۔ صوفی صاحب نے لاکھانی صاحب سے بات کی۔ ہمیں فری اکاونٹ مل گیا۔ اینڈ دا ریسٹ از ہسٹری۔ ایکسپریس پہلے دن سے مقبول ہوا تو اس کی ایک وجہ اسپورٹس کا صفحہ تھا۔ پھر جلد وہ وقت آیا کہ اسپورٹس کے دو صفحات ہوگئے۔

ایکسپریس کے دنوں میں صوفی صاحب سے قربت ہوئی۔ انھوں نے زندگی کے بہت سے تجربات شئیر کیے اور تاریخ اور معاشرے کے ان حقائق سے پردہ اٹھایا جو ایک عام پاکستانی طالب علم کی حیثیت سے میری نظر سے اوجھل تھے۔ اسلام کی سنہری تاریخ، پاکستان کا تابناک ماضی، اسٹیبلشمنٹ کے تاریخ ساز کارنامے، عدلیہ کے عظیم فیصلے، سیاسی جماعتوں کی ذہانت کو شرمانے والی حرکتیں، کراچی اور مہاجروں کا حال اور مستقبل، ان سب کا ابتدائی شعور مجھے صوفی صاحب سے ملا۔

میں نے ضمیر نیازی کی کتاب پریس ان چینز پڑھی تو اس میں ایک نام ایس ایم صوفی دیکھا۔ دفتر آکر صوفی صاحب سے پوچھا کہ ضیا الحق دور میں کیا آپ بھی جیل گئے تھے؟ انھوں نے تصدیق کی۔ میں حیران رہ گیا۔ اس وقت زیادہ حیرت ہوئی جب انھوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات کے علاوہ جماعت اسلامی کے اخبار جسارت میں بھی کام کرچکے ہیں۔ شاید ہی ایسا کوئی اور صحافی ہو۔ مساوات کے زمانے میں انھوں نے ایڈونچر بھی کیے۔ لیب کوٹ پہن کر یعنی ڈاکٹر یا کماونڈر بن کر بھٹو صاحب سے جیل جاکر ملے۔ مساوات بند ہوا تو بیروزگار ہوگئے۔ کوئی جاب نہیں دیتا تھا۔ آخر منیر حسین نے انھیں اخبار وطن میں ملازمت دی۔ منیر صاحب کے رسالوں میں کام کرنے والے کئی افراد سے میں نے ان کی برائیاں سنی ہیں۔ ان کے برے برے نام رکھے گئے۔ خود مجھے انھوں نے ایک دن ملازم رکھا اور اگلے دن نکال دیا۔ اس کے باوجود میں نے ہمیشہ منیر صاحب کی عزت کی کیونکہ انھوں نے بدترین حالات میں صوفی صاحب کی مدد کی تھی۔ میں اس کے لیے ذاتی طور پر ان کا احسان مند رہا۔

ایکسپریس کے بعد صوفی صاحب نے مجھے جیو کی ملازمت بھی دلائی۔ قربت کے بیس برسوں میں ہم دونوں نے بہت سی نجی باتیں ایک دوسرے کو بتائیں۔ میں سب نہیں لکھ سکتا۔ لیکن چند دلچسپ باتیں بتائی جاسکتی ہیں۔ مثلا انھوں نے بتایا کہ ان پر نام کا اثر ہے اور وہ اکثر فیصلے صوفیا کی طرح کرتے ہیں۔ یعنی کسی معاملے میں جو پہلا خیال آجائے، وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ ایک بار آف اسپنر توصیف احمد کا ذکر آیا تو صوفی صاحب نے بتایا کہ ان کی بیٹی کا نام انھوں نے رکھا تھا۔ یعنی خود دوسروں کو بچوں کے نام بتاتے تھے۔ لیکن اپنے جڑواں بچے ہوئے تو کسی اور نے راہ چلتے دو نام بتائے اور صوفی صاحب نے وہی نام رکھ دیے۔

صوفی صاحب نے بتایا کہ انھیں بچپن میں پڑھنے کا بہت شوق تھا اور محلے کی لائبریری سے کتابیں لاکر چاٹ جاتے تھے۔ ایک دن اہل تشیع کے بارہ اماموں کے بارے میں کتاب ملی۔ وہ گھر میں بیٹھے پڑھ رہے تھے کہ دادا نے دیکھ لیا۔ انھوں نے سر پیٹ لیا۔ کہنے لگے، میں اتنی مشکل سے کنورٹ ہوا ہوں اور تم پھر انھیں اماموں کی کتاب لے کر بیٹھ گئے۔ صوفی صاحب کا پورا نام سید محمد صوفی رضوی ہے۔ ان کے کزن ولی رضوی مرحوم پریس کلب کے عہدیدار تھے۔

میرے مہربانوں میں دو افراد ایسے ہیں جو نوجوانی میں سرخے نہیں تو بے حد روشن خیال تھے لیکن پھر ان کا مذہب کی طرف رجحان دیکھ کر میں بوکھلا گیا۔ ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا۔ ایک ایکسپریس کے ایڈیٹر مرحوم طاہر نجمی صاحب تھے جو انتقال سے چند سال قبل حج کر آئے۔ خیر، وہ تو میں نے بھی کیا ہے لیکن ان کی خبر سن کر ہکابکا رہ گیا۔ دوسرے صوفی صاحب ہیں۔

جاری۔۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra