Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. School Badalna Asaan Hai?

School Badalna Asaan Hai?

سکول بدلنا آسان ہے؟

اسکول ائیر کے آخری دن ہیں۔ تعطیلات کی خوشی کے ساتھ اب اداسی بھی ہورہی ہے۔ اگست میں اگلا تعلیمی سال شروع ہوگا تو میں اس اسکول نہیں آوں گا۔ یہاں استعفا دے دیا ہے۔ دوسرے اسکول میں جاب مل چکی ہے۔امریکا میں ہر کام بڑی منصوبہ بندی سے اور کافی وقت پہلے شروع کردیا جاتا ہے۔ مذاق میں کہا جاتا ہے کہ لوگ دسمبر کی چھٹی کے لیے جنوری میں درخواست دے دیتے ہیں۔

ٹیچرز کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے ایک ونڈو ہوتی ہے، یعنی چند ہفتے دورانیے کا ایک موقع جس میں وہ اسکول بدل سکتے ہیں۔ اگر وہ وقت نکل جائے تو انھیں اسی اسکول واپس آنا پڑتا ہے۔

سال کے درمیان میں ٹیچر اگر اسکول چھوڑ دے تو اسی کاونٹی میں دوسرا اسکول ملازمت نہیں دیتا۔ دوسری کاونٹی چلے جائیں تو مستقبل میں پرانی کاونٹی میں آنا مشکل ہوجاتا ہے۔

بعض اوقات اسکول خود ٹیچر سے کہہ دیتے ہیں کہ اگلی ملازمت ڈھونڈ لیں۔ اس کی وجہ خراب پرفارمنس بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اساتذہ کی اتنی کمی ہے کہ عموماََ ایسا نہیں کیا جاتا۔ خراب پرفارمنس والوں کے لیے ٹریننگ اور مینٹور کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ کسی ٹیچر پر کوئی سنگین الزام ہو تو الگ بات ہے۔

دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسکولوں کی باونڈریاں بدلتی رہتی ہیں۔ باونڈری سے مراد اسکول کی دیواریں نہیں، بلکہ یہ حدبندی کہ کس علاقے کے بچے اس اسکول میں آئیں گے۔ یہاں صرف انھیں بچوں کو اسکول میں داخلہ ملتا ہے جو اس محلے میں رہتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچے کا اسکول بدلنا چاہتے ہیں تو دوسرے محلے میں گھر لیں۔

اب کسی اسکول کی باونڈری بدل جائے اور اساتذہ مقررہ تعداد سے زیادہ ہوجائیں تو توازن برقرار رکھنے کے لیے چند ایک کا تبادلہ کردیا جاتا ہے یا اپنی مرضی سے نئی ملازمت تلاش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

میرا معاملہ یہ تھا کہ اسکول گھر سے تیس میل دور ہے۔ میں اپنے گھر کے قریب ملازمت تلاش کرسکتا تھا لیکن ان دنوں جارجیا سے واپس آنے کے بعد پریشان تھا اور جاب کے لیے ہاتھ پاوں ماررہا تھا۔ دسیوں اسکولوں میں اپلائی کیا اور جواب کا انتظار کرنے کے بجائے سب پرنسپلوں کو ای میلز کیں۔ کئی انٹرویو کالز آئیں۔ پھر گھر سے دور اس اسکول سے آفر آگئی۔ جب میں نے ہاں کردی تو چند دن بعد گھر کے قریب دوسرے اسکول نے بھی آفر کردی۔ مجھے معذرت کرنا پڑی کہ میں ایک پیشکش قبول کرچکا ہوں۔

یہ گزشتہ سال یعنی 2024 جنوری کی بات ہے۔ مئی میں اس اسکول نے دوبارہ رابطہ کیا کہ اب آنا چاہیں تو آجائیں۔ میں کمیونٹی کالج سے ٹیچنگ کورس کررہا تھا جس نے مجھے ٹیچنگ لائسنس دلوایا تھا۔ کورس کی ڈائریکٹر نے مشورہ دیا کہ ابھی اسکول نہ بدلیں کیونکہ فی الحال عارضی ٹیچنگ لائسنس ہے۔ اگر آپ اسکول بدلیں گے تو مستقل یعنی دس سال کا لائسنس کھٹائی میں پڑسکتا ہے۔ مجھے ایک بار پھر معذرت کرنا پڑی۔

اس سال میں نے خود گھر کے قریب اسکولوں میں اپلائی کیا کیونکہ روزانہ تیس میل جانا اور تیس میل آنا تھکا دیتا ہے۔ مجبوری کی بات اور تھی لیکن اب مسئلہ ختم ہوگیا ہے تو آسانی ڈھونڈنی چاہیے۔ خیر، تین اسکولوں سے آفرز ملیں لیکن میں نے اسی اسکول کا انتخاب کیا جس نے پہلے بلایا تھا۔

کراچی، دبئی اور پھر یہاں واشنگٹن میں وائس آف امریکا اور اب اسکول کی ملازمت، سب گھر سے میلوں دور کرتا رہا ہوں۔ آنے جانے میں گھنٹا سوا گھنٹا لگتا تھا۔ اب ایسا ہوگا کہ چند منٹ میں کام پر پہنچ جاوں گا اور چھٹی ہوتے ہی چند منٹ میں گھر واپسی ہوجائے گی۔ سوچ کر ہی خوشگوار احساس ہورہا ہے۔

اس سے پہلے صرف ایک بار دفتر سے قریب رہائش رہی ہے۔ جارجیا میں جس نیوز چینل میں کام کیا، اس کی اگلی گلی میں کمرا کرائے پر مل گیا تھا۔ آٹھ انسٹھ پر گھر سے نکلتا اور نو بجے پہنچ جاتا۔ لیکن بیوی بچوں سے دور تھا اس لیے شام کو گھر واپسی کے بجائے بور ہوکر سڑکیں ناپتا رہتا۔ عجیب بے کیف ایام تھے۔

جس اسکول میں کام کررہا ہوں، یہ پوش علاقے میں ہے۔ پاکستانیوں کے لیے تو پورا امریکا ہی پوش ملک ہے لیکن یہاں بھی مہنگے محلے ہوتے ہیں۔ بلکہ جس علاقے کا اسکول اچھا ہو، اس کے مکانوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے سفارتکار رہتے ہیں اور سفید فام آبادی زیادہ ہے، اس لیے اسکول کا معیار بھی بلند ہے۔ امریکا میں چوبیس ہزار ہائی اسکول ہیں۔ ان میں یہ 200 بہترین اسکولوں میں شامل ہے۔

آگے جس اسکول میں جاب ملی ہے، اس کی رینکنگ بہت ڈاون ہے۔ زیادہ بچے لوئر مڈل کلاس کے ہیں۔ لیکن ٹیچر کا کام پڑھانا ہوتا ہے۔ بلڈنگ تو ہر اسکول کی شاندار ہوتی ہے۔ نظام تعلیم سب کا ایک ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ تنخواہوں کا اسکیل بھی کم از کم کاونٹی میں یکساں ہی ہوتا ہے۔

یہاں اقربا پروری یا پسند ناپسند نہیں چلتی۔ آپ نے گریجویشن کیا ہے تو ماسٹرز والے جتنے پیسے نہیں ملیں گے۔ ڈبل ماسٹرز کرلیا ہے تو ایک ماسٹرز والے سے زیادہ سیلری ملے گی۔ پی ایچ ڈی کرلیں تو مزید تنخواہ بڑھ جائے گی۔

یہاں کسی بھی شعبے میں، کسی بھی دفتر میں کوئی شخص کم تنخواہ کی شکایت کرتا ہے تو اسے کولیگ، ایڈمن، دوست احباب سب ایک ہی مشورہ دیتے ہیں: گو بیک ٹو اسکول۔ یعنی مزید پڑھائی کرو۔ ایک اور ڈگری لے آو، چند سرٹفیکیشن اور کرلو تو پیسے بڑھ جائیں گے۔ یہ سن کر بہت تسلی ملتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ رنگ، نسل، مذہب، زبان کی بنیاد پر فیصلہ ہونا ہے۔ اس طرح سسٹم پر اعتبار بڑھتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam