Sahafat Ka Alao
صحافت کا الاو
ایمان دار صحافی زندگی بھر دوزخ میں جلتا ہے۔ سچ لکھنے کا موقع اور حوصلہ ہو تو شعلوں پر رقص کرنا پڑتا ہے۔ سچ نہ لکھنے دیا جائے تو اندر سلگتا رہتا ہے۔ روزگار لگارہے تو شمع حیات دونوں سروں سے جلتی ہے۔ چھوٹ جائے تو پیٹ کی آگ مارے ڈالتی ہے۔
صحافیوں کو خود اس انفرنو سے نکلنے کا طریقہ نہیں آتا لیکن مالکان انھیں بار بار یہ موقع دیتے ہیں۔ ملازمت ختم ہونے پر وہ ان دہکتی بھول بھلیوں سے نکل سکتے ہیں لیکن ان کی اذیت پسندی انھیں ہر بار روک لیتی ہے۔ نامعلوم کس دوست کی دعا تھی کہ میں نے اس جہنم میں پچیس سال گزارے اور جانے کس دشمن نے بددعا دی کہ میں اس پاتال سے نکل آیا۔
یہ جو میں اتنا سخت لکھ رہا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ایک اور دوست صحافت نام کے الاو میں جل کر راکھ ہوگیا۔ امین خان راجپوت ان کا نام تھا۔ اگر آپ اخباری کارکن نہیں ہیں تو یقینا آپ نے ان کا نام نہیں سنا ہوگا۔ آپ کو یا کسی کو بھی ایسے صحافی کے بارے میں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں جو اسکرین پر نہیں آتا اور کم از کم پانچ سات لاکھ ماہانہ تنخواہ نہیں لیتا۔
امین خان سے میری پہلی ملاقات ایکسپریس کے نیوزروم میں ہوئی تھی۔ شاید سنہ دو ہزار کی بات ہے۔ مجھے وہ بالکل اچھے نہیں لگے تھے۔ میری طرح چھوٹا قد، ذرا سا بھاری جسم، گھنے سیاہ بال، عمر کم تھی لیکن بھاری چہرے کی وجہ سے زیادہ لگتی تھی۔ مجھے وہ اس لیے اچھے نہیں لگے کہ چین اسموکر تھے۔ میں ایسے لوگوں کے پاس بیٹھ بھی نہیں پاتا۔
ان دنوں ایکسپریس کے نیوز ایڈیٹر طاہر نجمی تھے۔ ان کی بیگم یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں۔ شاید اس لیے وہ ہر ایک سے پوچھتے تھے، میاں کس مضمون میں ماسٹرز کیا ہے؟ لیکن کسی نے ماسٹرز نہ کیا ہو، تب بھی نوکری دے دیتے تھے۔ وہ اس معاملے میں بہترین آدمی تھے۔ امین نے غالبا گریجویشن بھی نہیں کیا تھا لیکن کام آتا تھا۔ نجمی صاحب نے رکھ لیا۔
ایکسپریس میں تب دو طرح کے لوگ کام کرتے تھے۔ ایک وہ، جو جنگ امن مساوات اور پتا نہیں کہاں کہاں کے نیوزرومز میں شفٹ انچارج، نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر رہ چکے تھے۔ یا پھر لونڈھار تھی، یعنی ہم نوجوان۔ اب ذرا نام اور بعد کے عہدے سنیں۔ درجن بھر نیوز چینلوں کا ڈائریکٹر نیوز بننے والا ندیم رضا، ڈان کا ڈائریکٹر نیوز زاہد مظہر، آج، ون نیوز اور جیو کا ایگزیکٹو پروڈیوسر سید کاشف رضا، جیو انٹرنیشنل کا کنٹرولر نسیم حیدر، جیو کا سابق بیورو چیف فہیم صدیقی، کئی چینلوں کا بیورو چیف رہنے والا ریحان ہاشمی، جنگ لندن کا نیوز ایڈیٹر نعیم کھوکھر، اخبار جہاں کے ایگزیکٹو ایڈیٹر رہنے والے عارف عزیز۔ مجھے بھی شمار کرلیں کہ نام کا سہی لیکن جیو کا کنٹرولر آوٹ پٹ رہا۔
افسوس کہ ان میں امین کا نام نہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے صرف جرنلزم نہیں، کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ آفس پالیٹکس کرتے ہیں، کچھ دوستیاں گانٹھتے ہیں، پی آر بناتے ہیں، کچھ لوگ یونین اور پریس کلب میں متحرک ہوکر نام اونچا کرتے ہیں۔ بار بار ادارے بدلنے پڑتے ہیں۔ جنھیں اس طرح کے کام نہیں آتے، وہ کاشف رضا کی طرح کتابوں پر کتابیں چھاپتے ہیں یا میری طرح چھوٹی موٹی کہانیاں لکھ کر نمایاں ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
امین خان کو ان سب کاموں سے کوئی غرض نہیں تھی۔ انھیں کوئی عہدہ بھی نہیں چاہیے تھا۔ سب صحافی افسر بن جائیں گے تو ڈیسک پر کام کون کرے گا؟ وہ ڈیسک پر کام کرنا چاہتے تھے۔ اس کا معمولی معاوضہ بھی انھیں قبول تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ انھیں وہ معمولی تنخواہ والا کام بھی کوئی نہیں دیتا تھا۔ کام دے بھی دیتا تو تنخواہ نہیں دیتا تھا۔
ایکسپریس سے نکل کر تقریبا سب کی زندگی بہتر ہوئی، سوائے امین خان کے۔ میں پریس کلب کم جاتا تھا۔ وہاں چند ایک بار ملاقات ہوئی۔ ایک دو بار وہ مجھ سے ملنے دفتر آئے۔ میں نے ہمیشہ انھیں پریشانی میں مبتلا دیکھا۔ کام نہ ملنے کی پریشانی، جیب خالی ہونے کی پریشانی، اہلخانہ کا پیٹ پالنے میں ناکامی اور ان کے ناراض ہونے کی پریشانی۔
ابتدائی دنوں کی ناگواری جلد ختم ہوگئی تھی۔ ان کا رویہ ہمیشہ محبت والا رہا۔ یہ جان کر زیادہ قربت محسوس ہوئی کہ ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ پھر ان سے کبیروالا کے شاعر بیدل حیدری کا ذکر سنا جن کی شاگردی انھوں نے اختیار کی تھی۔ ہمارے بابا کی بیدل حیدری سے ملاقاتیں رہی تھیں اور وہ اکثر ان کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ ممکن ہے بیدل حیدری محرم میں خانیوال امام بارگاہ آتے ہوں اور بابا کی ان سے وہاں ملاقاتیں ہوئی ہوں۔ امین خان سے میں نے کبھی نہیں پوچھا لیکن اندازہ تھا کہ وہ شیعہ تھے۔ آج ان کے بارے میں پڑھا کہ وہ اسماعیلی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسماعیلی برادری اپنوں کو مشکل میں نہیں چھوڑتی۔ امین کے واقعے سے دل خراب ہوا۔
تین دن پہلے امین خان نے فیس بک پر بتایا کہ وہ بیمار ہیں اور علاج کے لیے تیس چالیس لاکھ چاہیے۔ آج ان کے بیٹے نے یہ افسوس ناک خبر دی کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں کافی دیر بے یقینی کی کیفیت میں رہا۔ پھر حیدر جاوید سید صاحب نے تصدیق کی کہ ان کی امین کے اہلخانہ سے بات ہوئی ہے۔ اب دل غم سے بوجھل ہے۔
ممتاز شاعر رضی الدین رضی نے امین کا خاکہ لکھا ہے اور اس کی سرخی جمائی ہے، ملتان کے زرگروں کا ہیرا خاک میں مل گیا۔ آخر میں ہم سب خاک کا حصہ بن جاتے ہیں۔ لیکن مفلسی وہ شے ہے کہ انسان زندہ ہوتے ہوئے خاک ہوجاتا ہے۔ یہ کائنات کے اعلی ترین انعام زندگی کا ادنی ترین درجہ ہے۔
میں اپنے تجربات کی وجہ سے ڈیسک پر کام کرنے والے دوستوں کو مشورہ دوں گا کہ صحافی ہونے کا فخر یا خناس، جو بھی ہے، اسے دماغ سے نکالیں۔ پاکستان میں صحافیوں کا حال کبھی اچھا نہیں تھا اور مستقبل بھی روشن نہیں ہے۔ اینکرز اور یوٹیوبرز کو صحافی نہ سمجھیں، ان کی آمدنی کا مقابلہ نہ کریں۔ جرنلزم کی ملازمت برقرار ہے تو اسی عرصے میں کوئی دوسرا کام سیکھ لیں۔ نہیں ہے تو لوکل برانڈ جرنلزم پر لعنت بھیجیں اور کسی اور شعبے میں قسمت آزمائیں۔ بیروزگار صحافی سے چار پیسے کمانے والا ٹیکسی ڈرائیور بہتر ہے۔
میرا ایک دوست نیوز چینل میں ساٹھ ہزار کمارہا ہے اور دوسرا دوست ایک اچھے اسکول میں ستر ہزار تنخواہ لے رہا ہے۔ ستر ہزار بھی کوئی زیادہ تخواہ نہیں لیکن بہت سے صحافی اتنے پیسے بھی نہیں کمارہے۔ کیا پڑھے لکھے صحافی اسکول کے بچوں کو بھی نہیں پڑھا سکتے؟