Saeed Ibrahim
سعید ابراہیم
سعید ابراہیم ہمارے عہد کے اہم ترین دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ میں ان کا شمار حاشر ابن ارشاد اور وجاہت مسعود صاحبان والی فہرست میں کرتا ہوں، اگرچہ وہ کوئی پروفیسر یا ایڈیٹر نہیں ہیں، آرٹسٹ ہیں۔ وہ مشکل ترین سوالات اور خیالات کو نہایت سادہ اور آسان زبان میں پیش کرکے نوجوانوں کو سوچنے کا موقع دیتے ہیں۔
سعید صاحب نے آج لکھا ہے کہ مطالعے اور تفکر کی عادت پڑجائے تو سب سے بڑا مسئلہ ایسے احباب کی عدم دستیابی ہوتا ہے جن سے معمول کی باتوں سے ہٹ کر گفتگو کی جاسکے۔
یہ ایسا مسئلہ ہے جو لاکھوں میں کسی ایک کو لاحق ہوتا ہے۔ میں اس کی سنگینی سے آگاہ ہوں۔ نہیں، یہ نہ سمجھیں کہ میں اس مسئلے کا شکار ہوں۔ اول تو میں"احباب" سے دور رہنا پسند کرتا ہوں۔ قربت محبت کے قینچی ہے۔ لیکن جب کسی محفل میں ہوتا ہوں تو اسی کی سطح والی گفتگو کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ دانشوروں کے سامنے فیک دانشوری بگھارتا ہوں۔ عامیوں کے سامنے عام روپ برقرار رکھتا ہوں۔
لیکن سعید صاحب کی بات پر انور اقبال صاحب کا خیال آیا۔ انور صاحب واشنگٹن میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ اس سے پہلے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ برسوں کام کیا۔ اس سے پہلے انگلینڈ سے ماسٹرز کیا۔ اردو، انگریزی کے علاوہ پنجابی، بنگالی، فارسی اور کئی زبانیں جانتے ہیں۔ افسانے لکھتے ہیں۔ شاعری کرتے ہیں۔ مترجم ہیں۔
انھوں نے 80ء کی دہائی کے آغاز پر صحافت شروع کی۔ بڑے رہنماؤں سے ملنا جلنا رہا اور ان کے انٹرویو کیے۔ تاریخ بنتے بگڑتے دیکھی۔ امریکا میں وائٹ ہاؤس، کانگریس، محکمہ خارجہ سب جگہ آنا جانا ہے۔ وہ سب سے واقف ہیں۔ سب ان سے واقف ہیں۔
انور صاحب صحافی ہیں اس لیے پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملنا پڑتا ہے۔ ان کی محفلوں میں جاتے ہیں۔ ان کی تقریبات سے مفر ممکن نہیں۔ پھر وہاں کاٹھ کے الو ان کے تجربے اور مرتبے کو جانے بغیر یا جانتے ہوں تو لحاظ کیے بغیر اپنی انٹ شنٹ مارتے ہیں۔ ان کی بات کاٹتے ہیں۔ ان کے علم اور معلومات کو چیلنج کرتے ہیں اور کہتے ہیں، آپ کو کیا معلوم۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں، اصل بات کیا ہے۔ آپ کا تجزیہ غلط ہے۔ ہماری سنیں اور سر دھنیں۔
ان ملاقاتوں میں، ان محفلوں میں، ان کاٹھ کے الوؤں، بدھوؤں اور یوتھیوں کے سامنے وہ کیسا محسوس کرتے ہوں گے، آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ میں بھی ٹھیک سے نہیں جانتا۔ سعید صاحب ضرور اندازہ کرسکتے ہیں۔ ان کی تحریر پڑھ کر یہی خیال آیا۔