Monday, 30 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Profile Of A Graduate

Profile Of A Graduate

پروفائل آف اے گریجویٹ

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہائی اسکول یا یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلنے والے طالب علم کو کیسا شہری اور پیشہ ورانہ زندگی میں کم از کم کن صلاحیتیوں کا حامل ہونا چاہیے؟

میرا تجربہ یہ ہے کہ بیشتر والدین بچے کو اسکول میں داخل کراتے وقت اس کے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اکثر طالب علم ہائی اسکول کے آخری برسوں میں فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ سائنس پڑھیں گے یا نہیں۔ انھیں کیسا شہری بننا چاہیے، یونیورسٹی جانا ان کے لیے مفید ہوگا یا نہیں، اگر ہنر سیکھنا چاہیں تو کون سے مواقع موجود ہیں؟ یہ سب بہت کم لوگ سوچتے ہیں۔

میں امریکا کی ریاست ورجینیا کے ایک ہائی اسکول میں پڑھا رہا ہوں۔ ورجینیا کے محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ پر ایک صفحہ ہے، پروفائل آف اے گریجویٹ۔ یعنی ریاست ورجینیا میں جب کوئی طالب علم ہائی اسکول پاس کرلیتا ہے تو وہ کس قسم کا شہری بنتا ہے، کم از کم کن صلاحیتیوں کا مالک ہوتا ہے اور جس کرئیر کا وہ انتخاب کرچکا ہوتا ہے، اس کے لیے کس قدر تیار ہوتا ہے۔ وہ صرف کرئیر ریڈی نہیں، لائف ریڈی بھی ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکا میں ہائی اسکول پاکستان کے انٹرمیڈیٹ یا اے لیول کے مساوی ہوتا ہے۔

میں نے حال میں بیک ورڈ ڈیزائن ایجوکیشن پر کتابیں پڑھی ہیں۔ امریکا میں یہی طریقہ رائج ہے۔ یعنی ہدف پہلے طے کرتے ہیں، پھر اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں۔ پروفائل آف اے گریجویٹ طے کرنے کے بعد ہر کلاس کے لرننگ ٹارگٹس مقرر کیے گئے۔ ان پر ہر کچھ سال بعد نظرثانی کی جاتی ہے۔ ان لرننگ ٹارگٹس کے مطابق تعلیم کا فریم ورک تیار کیا جاتا ہے۔ اس فریم ورک کے تحت ٹیکسٹ بکس لکھی اور چھاپی جاتی ہیں۔ اس کے بعد اساتذہ کو مکمل آزادی دی جاتی ہے کہ ان کتابوں سے استفادہ کریں یا نہ کریں۔ بس طلبہ کو اس قابل بنادیں کہ سال کے آخر میں لرننگ ٹارگٹس کے مطابق امتحان آئیں تو ان میں پاس ہوسکیں۔

مثال کے طور پر میری انگریزی کلاس کے بچوں کے لیے ایک لرننگ ٹارگٹ ہے کہ انھیں سیکوئنسنگ آنی چاہیے۔ اب میں کسی کتاب سے پڑھاوں، یا کسی ویب سائٹ سے لیسن کاپی کرلوں، یا خود سے بچوں کو سکھاوں، کوئی مجھ سے سوال نہیں کرے گا۔ یہ مرحلہ اس وقت آسکتا ہے جب فائنل ایگزیم میں، جنھیں ایس او ایل کہا جاتا ہے، اس بارے میں سوال آئے اور میرے طلبہ اس کا جواب نہ دے سکیں۔ مجھے کیوں یقین ہے کہ میرے طلبہ اس کے ماہر ہوچکے ہیں، کیونکہ میں فارمیٹو اسیسمنٹ لے کر دیکھ چکا ہوں۔ اگر کوئی بچہ کمزور تھا تو میں نے اس پر خصوصی توجہ دے کر اس قابل بنادیا۔

میں نے دو سال قبل پہلی بار ایک مڈل اسکول میں ملازمت کی تو ایک استانی صاحبہ کے ساتھ کام کررہا تھا۔ انھوں نے ایک دن لیسن کے دوران کہا کہ یونیورسٹی کی تعلیم سب لوگوں کے لیے نہیں ہوتی، اس لیے ہائی اسکول پہنچ کر اس بارے میں درست فیصلہ کرنا چاہیے۔ مجھے حیرت، بلکہ کچھ افسوس بھی ہوا۔ کلاس کے بعد ان سے کہا کہ میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ ہم ٹیچرز ہیں اور ہمیں ہر بچے کو یونیورسٹی کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ اگر ہمارے بچے یونیورسٹی نہ جاسکے تو کیا یہ ہماری ناکامی نہیں ہوگی؟

استانی صاحبہ نے کہا، اور یہ بات کافی سوچ بچار کے بعد میری سمجھ میں آگئی، کہ واقعی ہر بچہ اعلی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ امریکا میں اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ یونیورسٹی کی تعلیم بے حد مہنگی ہے۔ اگر کوئی شوق میں داخلہ لے بیٹھے اور تعلیم مکمل نہ کرپائے تو بھاری اسٹوڈنٹ لون تلے دب سکتا ہے اور اسے اتارنے کے لیے اس کے پاس وسائل نہیں ہوں گے۔ اپنا کاروبار کرنے والوں کا معاملہ الگ ہے، لیکن ملازمت کرنے والوں کی تنخواہیں ان کی تعلیم سے طے ہوتی ہیں۔

دوسرا معاملہ یہ ہے کہ امریکا میں ہر شعبہ زندگی میں بے پناہ مواقع دستیاب ہیں۔ اگر کوئی یونیورسٹی جانے کے بجائے کسی ٹیکنیکل شعبے کا انتخاب کرے تو اس میں ڈپلوما حاصل کرکے اتنے ہی پیسے کماسکتا ہے جتنا یونیورسٹی گریجویٹ۔

ہمارے ہائی اسکول میں چند ہفتے قبل ٹیکنیکل تعلیم دینے والے اداروں کے اساتذہ آئے اور تعارفی سیشن ہوا۔ انھوں نے طلبہ سے کہا کہ اگر روایتی مضامین میں دل نہیں لگ رہا یا پاس کرنے میں مشکل ہورہی ہے تو ہماری اکیڈمی جوائن کرلیں۔ اس سے کریڈٹس بھی ملیں گے، یعنی ہائی اسکول ڈپلوما مکمل کرنے میں سہولت ہوجائے گی، اور یہ انٹرشپ بھی ہوگی جو آپ کے ریزیوما پر آکر جاب دلانے میں مدد دے گی۔ ہائی اسکول میں پڑھنے کے دوران کورس مفت ہے۔ ہائی اسکول کے بعد ہنر سیکھنے کا فیصلہ کریں گے تو ہزاروں ڈالر فیس دینا پڑے گی۔

میں نے کئی طلبہ سے بات کی اور اندازہ ہوا کہ یہ کس قدر عمدہ کرئیر گائیڈنس پروگرام ہے۔ ایک بچے کو گاڑیوں میں دلچسپی ہے۔ وہ پڑھائی میں اچھا نہیں۔ اس نے گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام سکھانے والی اکیڈمی میں داخلہ لے لیا۔ اسکول کے ساتھ وہ کورس مکمل ہوجائے گا۔ ابھی اس کے کلاس فیلوز یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہوں گے کہ وہ خوب ڈالرز کمارہا ہوگا۔

ہمارے ننانوے فیصد ہائی اسکول اور کالج بچوں کو کسی بھی کرئیر کے لیے تیار ہونا اور اس کے لیے کم از کم مطلوبہ شرائط پر پورا اترنا نہیں سکھاتے۔ ہمارے تعلیمی ادارے کرئیر ریڈی تو دور کی بات، طلبہ کو لائف ریڈی بھی نہیں کرپاتے۔

Check Also

Tareekh Ka Sab Se Bara Jhoot

By Gul Bakhshalvi