Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Mujtaba Sahib

Mujtaba Sahib

مجتبی صاحب

پہلے پہل ان کو دیکھا تو ان کا چہرہ اتنا بھاری تھا، جیسے اب میرا ہوگیا ہے۔ میانہ قد اور سر بھٹو صاحب جیسا، لیکن جتنے بھی بال دستیاب تھے، انھیں سلیقے سے سنوار کے رکھتے تھے۔ گفتگو کے دوران مسلسل چہرے پر کھیلنے والی مسکراہٹ خبریں ایڈٹ کرتے وقت غائب ہوجاتی اور اس وقت کوئی اور آدمی معلوم ہوتے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت عینک آنکھوں پر لگالیتے۔

غلام مجتبی ان کا نام تھا اور وہ ایکسپریس میں میرے سینئر کولیگ تھے۔ ہم نائٹ شفٹ میں اس ڈیسک پر کام کرتے جس کے نیوز ایڈیٹر طاہر نجمی تھے۔ نائٹ ڈیسک کا ہر سب ایڈیٹر صحافت میں ایک عمر گزار کے وہاں پہنچا تھا۔ ذاکر نسیم، مبشر منصور، سلیم عامر، الطاف حسین، حیات عزیز نقوی، انھیں میں سے ایک مجتبی صاحب تھے۔

وہ فلم اسٹار غلام محی الدین کے بڑے بھائی تھے۔ غلام مجتبی جتوئی سے دوستی یا کچھ تعلق تھا۔ وہ جب نگراں وزیراعظم بنے تو انھیں اپنا اسپیچ رائٹر مقرر کیا۔ لیکن ان کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ایکسپریس سے پہلے بھی لکھنے پڑھنے کے کام کرتے رہے۔ ان دنوں بھی غالبا پولٹری ایسوسی ایشن کا میگزین سنبھالتے تھے جس سے کچھ اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔

مجتبی صاحب کی حس مزاح اور انگریزی کمال کی تھی۔ کوئی مشکل لفظ یا جملہ آجاتا تو ہمیں ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان سے پوچھ لیتے تھے۔ سینئر کے بجائے ان کی ہم نوجوانوں سے دوستی تھی۔ مجتبی صاحب، سٹی ایڈیٹر سرفراز سیال اور میں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ وہ دنیا جہان کے لطیفے سناتے۔

ایک بار کہنے لگے، میں ددھیال میں سب سے بڑا ہوں۔ کزنز میں سب سے پہلی شادی میری ہوئی۔ سارا خاندان جمع ہوا اور خوب ہلہ گلہ مچا۔ اس کے بعد اور کزنز کی شادیاں ہوئیں۔ ایک بار کسی نے کہا، جتنا مزہ مجتبی بھائی کی شادی میں آیا تھا، اتنا کبھی اور نہیں آیا۔ مجبتی صاحب نے کہا، سچی بات ہے۔ مجھے بھی اتنا مزہ پھر کبھی نہیں آیا۔

مجتبی صاحب میری طرح بس یا کوچ ہی سے دفتر آتے تھے۔ پہلی بار جب ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کے پاس کار ہے۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا، آپ کو ڈرائیونگ آتی ہے؟ انھوں نے ہنس کر کہا، مجھے اتنی اچھی ڈرائیونگ آتی ہے کہ لوگ کہتے ہیں، آپ کو صرف یہی کام کرنا چاہیے۔

اس وقت تو میں ہنس پڑا تھا لیکن پھر وہ دن بھی آئے کہ مجھے ڈرائیونگ کرکے گھر چلانا پڑا۔ اوبر کی پہلی رائیڈ پر مجتبی صاحب یاد آئے۔

میں اپنی حماقتوں کا ذکر کرنے سے نہیں شرماتا۔ ایکسپریس کے زمانے میں، یعنی اٹھانوے ننانوے میں کراچی میں شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ زوروں پر تھی۔ ایکسپریس میں ایک نوجوان پیج میکر کام کرتا تھا جس کا نام نعمان تھا۔ وہ شیعہ نہیں تھا لیکن اکثر کالی شرٹ پہنتا اور ہاتھوں میں فیشن والے کڑے ہوتے۔ ایک دن وہ حسب معمول موٹر سائیکل پر دفتر آرہا تھا کہ کسی نے پرانی سبزی منڈی کے پاس اسے گولی مار دی۔

ایکسپریس میں سب ہی اس قتل پر دکھی اور پریشان ہوئے لیکن مجتبی صاحب نے مجھے مزید ڈرا دیا۔ کہنے لگے، کراچی میں یہ سلسلہ مزید چلے گا اور تم جیسے شیعہ نوجوانوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ بھاگو اس ملک سے۔ میری گھگھی بندھ گئی۔ وہ مجھے اصرار کرکے سینئر صحافی آغا مسعود حسین کے پاس لے گئے جو ان کے دوست تھے اور کئی سال پہلے سندھ کے نگراں وزیر اطلاعات رہ چکے تھے۔ مجتبی صاحب نے کہا، آغا صاحب کسی اچھے ملک کا ویزا لگوادیں گے۔

آغا صاحب نے پہلی ملاقات پر کہا، جاپان جانا پسند کرو گے؟ دوسری ملاقات پر کہا، فی الحال ایران کا ویزا لگوا دیتا ہوں۔ تیسری ملاقات کرنے کی میری ہمت ہی نہیں ہوئی۔

اخبارات کی نائٹ شفٹ رات دو بجے ختم ہوتی ہے۔ دفتر کی گاڑی ڈھائی بجے نکلتی اور سارا شہر گھما کے ہمیں گھر چھوڑتی۔ میں صبح چار بجے انچولی پہنچتا تھا۔ اس سے کافی پہلے مجتبی صاحب کا گھر آتا، جو گلستان جوہر میں ائیرپورٹ کے قریب ایک نئی ہاوسنگ سوسائٹی میں تھا۔ تب وہاں چند ایک مکان بنے ہوئے تھے اور زیادہ آبادی نہیں تھی۔ رات کو کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ لیکن جب میں پہلی بار دن میں ان کے گھر گیا تو چونکا۔ اس نئی سوسائٹی کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا مدرسہ تھا۔

میں نے کہا، مجتبی صاحب، ہم روزانہ ملک میں اور اپنے شہر میں شدت پسندی بڑھنے اور خون خرابہ ہونے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ نے ایک مدرسے کے ساتھ گھر بنالیا۔ انھوں نے کہا، پلاٹ خریدتے وقت یہ بات معلوم نہیں تھی۔ لیکن خیر۔ یہ لوگ ویسے نہیں ہیں۔ یہ پرامن لوگ ہیں۔ ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

مجتبی صاحب پروگریسو آدمی تھے۔ ان کی بیگم کسی انگریزی اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ دونوں نے سخت محنت کرکے گھر بنایا اور بچوں کو بہترین تعلیم دلوائی۔ مجتبی صاحب کی خواہش تھی کہ ایک بیٹا سی اے کرے اور دوسرا ایم بی اے۔ دونوں بیٹوں کی تعلیم پر بہت توجہ تھی۔

میں ایکسپریس سے جنگ گیا اور پھر جیو۔ چار سال دبئی میں بھی گزارے۔ اس دوران مجتبی صاحب سے رابطہ نہیں رہا۔ لیکن ایک دن ایکسپریس کا ایک پرانا دوست ملا تو اس نے بہت عجیب کہانی سنائی۔

دوست نے کہا کہ ایک دن مجتبی صاحب کا ایک فرمانبردار بیٹا گھر سے غائب ہوگیا۔ یہ انہونی بات تھی۔ وہ یہی سمجھے ہوں گے کہ کوئی حادثہ ہوگیا ہے یا کسی نے اغوا کرلیا ہے۔ انھیں یہ خیال ہی نہیں آیا ہوگا کہ وہ خود سے کہیں چلا گیا ہے۔ لیکن یہی ہوا تھا۔ مجتبی صاحب نے بھاگ دوڑ کی، ہر طرح کے وسائل استعمال کیے، تعلقات کام میں لائے تو انکشاف ہوا کہ بچہ مدرسے والوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ وہ اسے کشمیر لے گئے۔ میں نہیں جانتا کہ مجتبی صاحب نے کیسے تنظیم والوں کو راضی کیا اور کیسے بچے کو واپس لائے۔ وہ واپس تو آگیا لیکن برین واش ہوچکا تھا۔ مجتبی صاحب نے بعد میں کسی کو بتایا کہ کہنے کو میں صحافی ہوں لیکن ٹی وی پر خبریں نہیں دیکھ سکتا کیونکہ بیٹا اس کے خلاف ہے۔ گھر میں اسلام نافذ ہوچکا ہے۔

چند دن پہلے مجتبی صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی بہت سی باتیں یاد آئیں۔ ایکسپریس کے دنوں میں ان سے بہت قربت رہی۔ ساتھ کام کرتے ہوئے کبھی کبھی احساس ہوتا تھا کہ مجتبی صاحب مبالغہ بہت کرتے ہیں۔ یہ کہنا اچھا نہیں لگتا کہ وہ جھوٹ بولتے تھے یا غلط بیانی کرتے تھے۔ لفظ مبالغہ نسبتا کم منفی ہے۔ بڑے آدمی کا بھرم برقرار رہنا چاہیے۔

لیکن پھر ایک دن بھرم ٹوٹ گیا۔ مارچ یا اپریل 2001 میں جنگ میں ملازمت کا اشتہار آیا۔ میں نے اپلائی نہیں کیا تھا۔ آخری تاریخ کو نجمی صاحب نے پوچھا، آپ نے جنگ کو درخواست بھیجی۔ میں نے کہا، نہیں۔ انھوں نے زبردستی سی وی بنوایا اور اپنے رائیڈر سے بھجوایا۔ رٹن ٹیسٹ ہوا جس میں میرے سب سے زیادہ مارکس آئے۔

مجتبی صاحب میرے رازدار تھے۔ جنگ سے انٹرویو کی کال آئی تو میں نے ان کے سوا کسی کو نہیں بتایا۔ نجمی صاحب کو بھی انٹرویو کے بعد بتایا۔ مجبتی صاحب انٹرویو کی کال کا سن کر پرجوش ہوگئے۔ مجھے تنہائی میں سمجھایا کہ اپنے سب سے اچھے کپڑے پہن کر جانا۔ کسی کے رعب میں مت آنا۔ دوگنا تنخواہ مانگنا۔

انٹرویو سے ایک دن پہلے میں مجبتی صاحب سے مزید بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہ اس دن دفتر نہیں آئے۔ میں اگلے دن انٹرویو کے لیے جنگ کے دفتر پہنچا۔ انٹرویو ہوا۔ ایک دن کام کرکے بھی دکھایا۔ اس شام ہمایوں صاحب نے مجھ سے حتمی بات کی۔

ہمایوں صاحب نے کہا، مبشر صاحب، آپ نے پیسے زیادہ مانگ لیے ہیں۔ اگر آپ تنخواہ پر کچھ سمجھوتا کرلیں تو نوکری پکی سمجھیں۔ آپ نوجوان ہیں، ہم آپ کو ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ کل آپ ہی کے ایکسپریس کے مجتبی صاحب کا انٹرویو بھی ہوا ہے۔

میں نے چونک کر پوچھا، واقعی؟ وہ بھی اس آسامی کے امیدوار ہیں؟ ہمایوں صاحب نے کہا، جی ہاں۔ ان کا نام تو امیدواروں کی فہرست میں نہیں تھا۔ لیکن انھیں کہیں سے پتا چل گیا کہ جنگ میں انٹرویو ہورہے ہیں۔ انھوں نے سفارش کرواکے اپنا انٹرویو کروایا۔ لیکن انھوں نے اتنے زیادہ پیسے مانگ لیے کہ جنگ کبھی بھی نہیں دے گا۔ آپ کچھ کم پر راضی ہوں تو کل ہی جوائن کرلیں۔

میں نے ایکسپریس جاکر نجمی صاحب کو بتایا۔ انھوں نے میرے بہتر مستقبل کی خاطر استعفا منظور کرلیا۔ میں نے جنگ جوائن کیا اور پھر مجتبی صاحب سے رابطہ نہیں رکھا۔

Check Also

Hum Kitna Peechay Hain

By Tehsin Ullah Khan