Mubashir Zaidi Liberal Ya Dictator?
مبشر زیدی لبرل یا ڈکٹیٹر؟

کئی افراد نے اعتراض کیا ہے کہ مبشر زیدی خود تو لبرل ہے لیکن اپنے گھر کی خواتین سے حجاب کرواتا ہے۔ اعتراض کرنے والوں میں بیشتر مذہبی لوگ ہیں لیکن ممکن ہے کہ بعض ملحد بھی ہوں۔ لوگوں نے ان بکس بھی یہ اعتراضات کیے لیکن میں نظرانداز کررہا تھا۔ لیکن آج پاکستان فری تھنکرز گروپ میں یہ موضوع زیر بحث آیا۔ اس کے ایڈمن نے اس بارے میں ایک مثبت تحریر لکھ کر جواب دیا۔
اس طرح کے اعتراضات لاعلمی کی وجہ سے کیے جاتے ہیں یا اس خیال کے زیر اثر کہ زندگی گزارنے کا کوئی ایک طریقہ درست ہے اور دوسرا غلط۔
لبرلزم، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، فرد کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ آزادی کا مطلب ننگا ہونا نہیں ہوتا۔ فرد کی آزادی کا مطلب ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کی زندگی جیے۔ اس مرضی میں کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی آزادی شامل ہے۔
میں اپنے گھر کا ایک فرد ہوں، ڈکٹیٹر یا مبلغ نہیں ہوں۔ میں اپنی مرضی نہیں ٹھونستا۔ میری بیوی اور بچے جیسے چاہیں زندگی گزاریں۔ ان کی خوشی میری خوشی ہے۔
میں نے اپنے بچوں کو اپنی بساط کے مطابق بہترین تعلیم دلوائی ہے۔ اپنے حساب سے بہترین تربیت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اچھا برا بتادیا ہے۔
میں نے بچوں کو سمجھایا ہے کہ انسان کی اچھائی یا برائی کا تعلق اس کے عمل سے ہوتا ہے۔ ایسے عمل سے، جس سے دوسرے متاثر ہوتے ہوں۔ اس سے ہٹ کر کسی کو جج نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارا پڑوسی گھر میں شراب پیتا ہے تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ قانون پر عمل کرتا ہے، ہم سے اچھی طرح پیش آتا ہے اور ہمسائیگی کا خیال رکھتا ہے تو اچھا آدمی ہے۔ ہمارا رشتے دار شراب نہیں پیتا اور نماز روزے کا پابند ہے لیکن کسی کا حق کھاگیا ہے تو اچھا آدمی نہیں ہے۔
ہم گھر میں ہر قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ مذہب اور سیاست پر بھی۔ بچے میرے خیالات سے آگاہ ہیں اور میں ان کے۔ بعض باتوں پر ہمارا اتفاق ہے اور بعض پر نہیں۔ لیکن ہم زبردستی ایک دوسرے پر اپنے خیالات نہیں تھوپتے۔۔
بیوی یا بچے مجھ سے اختلاف کرتے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی الگ سوچ رکھتے ہیں۔ تعلیم اور تربیت کا مقصد رٹو طوطے پیدا کرنا نہیں ہوتا۔ عقل پر پٹی باندھنا نہیں ہوتا۔ اندھے مقلد بنانا نہیں ہوتا۔
میری بیوی اور بچے مذہبی رجحان رکھتے ہیں، اس سے قطع نظر امریکی مسلمانوں سے متعلق ایک بات پاکستانیوں کے سمجھنے کی ہے۔ امریکا میں شناخت بہت اہم معاملہ ہے۔ یہاں بہت سے سیاہ فام فقط یہ جان کر مسلمان ہوگئے کہ ان کے آبا و اجداد کو افریقی مسلمان ملکوں سے غلام بناکر لایا گیا تھا۔ وہ پریکٹسنگ مسلم نہیں ہیں، بس شناخت کی خاطر اسلام سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔
اسی طرح بہت سے نوجوان مسلمان لڑکے لڑکیاں لبرل خیالات رکھتے ہیں لیکن داڑھی اور اسکارف کو اپنی شناخت کے طور پر اپناتے ہیں۔ یہاں لبرل ہونے سے مراد شراب پینا یا اڈلٹ کلب میں برہنہ ڈانس کرنا نہیں، کیونکہ مذہبی پاکستانیوں کے ذہن میں صرف یہی بات آتی ہے۔ لبرل ہونے سے مراد فرد کی آزادی کا قائل ہونا ہوتا ہے۔

