Meri Beti Mera Fakhar
میری بیٹی میرا فخر

امی کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ خانیوال جیسے چھوٹے شہر میں 1950ء کی دہائی میں چند ایک ہی اسکول ہوں گے۔ نانا نے ان کا داخلہ کرانا چاہا۔ ہمارے دادا ان کے بہنوئی اور عالم دین تھے۔ تایا بھی مولانا تھے۔ انھوں نے کہا، کیا اب سیدانیاں گھر سے نکل کر اسکول جائیں گی؟ نانا اور نانی دباو میں آگئے۔
امی نے گھر میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔ ستر کی دہائی میں ڈائجسٹ پڑھتی تھیں۔ چھوٹے ماموں اور خالا کراچی میں رہتے تھے۔ نانی ان سے خط لکھواتی تھیں۔
جب میرے اسکول جانے کا وقت آیا تو خانیوال بدستور چھوٹا سا شہر تھا۔ پہلا انگلش میڈیم اسکول نیا نیا کھلا تھا جس کا نام قائداعظم پبلک تھا۔ اس کی فیس پینتیس روپے تھے۔ سرکاری اسکولوں کی فیس کے مقابلے میں یہ کافی زیادہ رقم تھی۔ لیکن امی نے ضد کرکے مجھے اسی اسکول میں داخل کروایا۔ بابا کی انگریزی اچھی تھی اور میرا حافظہ۔ ٹیچر بھی اچھی ملیں۔ میں فرسٹ آتا تو امی خوشی سے نہال ہوجاتیں۔
میں نے زندگی میں کافی اتار چڑھاو دیکھے ہیں۔ شادی کے بعد مشکلات کا زمانہ آیا۔ بابا ریٹائر ہوچکے تھے۔ میں اخبار میں کام کرتا تھا اور تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ بیٹی کے اسکول جانے کی عمر ہوئی تو پریشانی کا سامنا تھا۔ اب ربع صدی کی رفاقت کے بعد بھی کہہ سکتا ہوں کہ بیوی نے پوری زندگی میں صرف ایک فرمائش کی۔ بیٹی کو اچھے اسکول میں داخل کروانا ہے۔ میری اپنی بھی یہی خواہش تھی۔ لیکن وسائل نہیں تھے۔ چنانچہ پارٹ ٹائم جاب کی۔ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتا اور رات بارہ بجے گھستا۔ لیکن اس مشقت کے نتیجے میں جو پیسے ملے، ان سے بیٹی کو اپنی حیثیت سے اچھے اسکول میں داخل کروایا۔
پھر جیو کی ملازمت مل گئی۔ دبئی بھیج دیا گیا۔ درہم والی تنخواہ لگ گئی۔ بابا نے سمجھایا کہ وہاں اکیلے رہو گے تو چار پیسے جمع کرسکو گے۔ کہیں انویسٹ کرسکو گے۔ میں نے کہا، بچوں کی تعلیم سے بڑھ کر کیا انویسٹمنٹ ہوسکتی ہے؟ بچوں کو دبئی لے گیا اور وہاں بھی اچھے اسکولوں میں داخل کروایا۔
پاکستان واپسی ہوئی تو بیکن ہاوس کا انتخاب کیا۔ بچوں کے زرلٹ ہمیشہ اچھے آئے۔ بیٹی نے ہائی اسکول میں ہیڈ گرل کا الیکشن لڑا اور ہار گئی۔ گھر آکر خوب روئی۔ میں نے کہا، اے گریڈ لاکر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔ اس کے لیے دوستیاں اور تعلقات بڑھانا پڑتے ہیں۔ اگلے سال اس نے پھر الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے جیت کر ہیڈ گرل بنی۔ او لیول میں 9 اے لیے۔
میں نے دبئی کے زمانے سے کہنا شروع کردیا تھا کہ اپنے بچوں، خاص طور پر بیٹی کو امریکا بھیجوں گا۔ وہیں سے یونیورسٹی کی تعلیم دلواوں گا۔ خاندان میں کچھ لوگوں کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آجاتی۔ کوئی کوئی اعتراض بھی کرتا۔ بیٹی کو اکیلے باہر بھیج دو گے؟ کیا یہ مناسب ہوگا؟
مجھے یاد آجاتا کہ امی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ میں سختی سے جواب دیتا، ضرور بھیجوں گا۔ اس سے زیادہ مناسب کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
کراچی میں تین چار ایسے کالج ہیں جو بچوں کو مغربی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بہت اچھی تعلیم کے ساتھ اسکالرشپ حاصل کرنے کے طریقے بتاتے ہیں۔ امرا کے جن بچوں کو اسکالرشپ نہ درکار ہو، بہرحال انھیں بھی امریکی یورپی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے ایک خاص سسٹم سے واقف ہونا پڑتا ہے۔
میں نے بیٹی کو نکسر میں داخل کروایا۔ وہاں بھی اس کی کارکردگی اچھی تھی۔ لیکن مجھے وائس آف امریکا کی ملازمت مل گئی۔ ہم سب ہی امریکا آگئے۔
یہاں آکر ایک ایسی مشکل کا علم ہوا، جو پہلے علم میں نہیں تھی۔ کسی نے بتایا بھی نہیں تھا۔ میں ورک ویزا پر تھا۔ ٹیکس گزار ہونے کے باوجود میرے بچوں کو یونیورسٹی میں سرکاری اسکالرشپ نہیں مل سکتی تھی۔ اس کے بغیر فیسیں اتنی تھیں کہ میں ادا نہیں کرسکتا تھا۔ بیٹی کو گھر بیٹھنا پڑا۔ دو تین سال ضائع ہوگئے۔
گرین کارڈ ملا لیکن ملازمت ختم ہوگئی۔ میں اوبر چلانے پر مجبور ہوا۔ اس آمدنی میں بیٹی کو یونیورسٹی میں کیسے پڑھاتا۔ بھاری فیس کیسے بھرتا۔
بیٹی بہت ہمت والی ہے۔ اس نے یونیورسٹی کے بجائے کمیونٹی کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں یہ سہولت ہے کہ دو سال کالج میں پڑھ کر باقی دو سال یونیورسٹی جاسکتے ہیں۔ کمیونٹی کالج کی فیس یونیورسٹی سے بہت کم ہوتی ہے۔ بیٹی نے جاب کرلی اور گرین کارڈ ملنے کی وجہ سے اسکالرشپس کے لیے بھی اپلائی کیا۔ کالج کے دو سال کے بعد یونیورسٹی چلی گئی۔ پڑھائی بھی کی، جاب بھی کی، والنٹئیر ورک بھی کیا، اسکالرشپس بھی لیے۔
امریکا میں یونیورسٹی مہنگی ہے۔ بہت سے طلبہ ڈگری لیتے لیتے اسٹوڈنٹ لون تلے دب جاتے ہیں۔ بیٹی نے ایک ڈالر لون نہیں لیا، ایک ڈالر باپ سے نہیں لیا اور اعزاز کے ساتھ ڈگری مکمل کرلی۔
سارا کمال بیٹی کا ہے۔ میں صرف اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ لیکن پھر بھی سب سے زیادہ میں ہی جشن منارہا ہوں۔ اس موقع پر امی کو بھی یاد کررہا ہوں۔ وہ بھی تعلیم کی اتنی ہی شوقین تھیں۔ اتنی ہی محنتی تھیں۔ لیکن وسائل نہیں تھے۔ مواقع نہیں تھے۔ حوصلہ دینے والا کوئی نہیں تھا۔
انسان نسل در نسل اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔ ایک نسل خواب دیکھتی ہے، دوسری محنت کرتی ہے، تیسری منزل پر پہنچتی ہے۔ خواب دیکھنے ضروری ہیں۔

