Jaffer Rizvi
جعفر رضوی
کراچی سے باہر کے لوگ نہیں جانتے اور اس شہر میں رہنے والے بہت سے لوگ بھی درست اندازہ نہیں لگا پاتے کہ نوے اور سنہ دو ہزار کی دہائیوں میں بچ بچاکر زندہ رہنا کتنا بڑا کام تھا۔ یہ کام ان لوگوں کے لیے اور زیادہ مشکل تھا جو سیاسی کارکن تھے، یا پولیس ملازم تھے، یا صحافی تھے، یا شیعہ تھے، یا کوئی اور واضح شناخت رکھتے تھے۔
میں نے خوف اور قتل و غارت گری کا وہ دور شیعہ اکثریت کے مہاجر علاقے میں گزارا اور صحافت جیسے خطرناک پیشے سے وابستہ رہا۔ اب پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو حسین یادوں کے ساتھ دہشت زدہ کردینے والے لمحات بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔
کراچی کی ہڑتالیں، جلاؤ گھیراؤ، فائرنگ، دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی خبریں بیشتر عام شہریوں نے اخبار میں پڑھی ہیں یا ٹی وی پر دیکھی ہیں۔ میں ان ہنگامہ خیز دنوں میں دفتر جاتا تھا اور اندھیری راتوں میں واپسی کے لیے نکلتا تھا۔ بہت سی بدترین خبریں میں نے اور میرے ساتھیوں نے نیوزروم میں سنیں اور ان کی سرخیاں بنائیں۔ اس کے بعد یہ گفتگو کی کہ اب گھر واپس کیسے جائیں۔
سچ یہ ہے کہ نیوزروم میں دو دہائیاں کام کرنے اور کرائم رپورٹرز سے دوستیوں کے باوجود بہت سی پس پردہ باتیں مجھ جیسے صحافیوں کو بھی پتا نہیں چلتیں۔ باخبر لوگ کبھی بولتے ہیں یا لکھتے ہیں تو پہیلیوں میں بات کرتے ہیں۔ حساس معاملات پر کتابیں لکھنے کا رجحان نہیں اور کوئی لکھے تو قابل اعتبار ہونے کا یقین نہیں آتا۔
جعفر رضوی سینئر صحافی ہیں۔ خود بھی بھروسے لائق ہیں اور تعلق بھی بی بی سی جیسے معتبر ادارے سے ہے۔ طالب علمی میں این ایس ایف کے عہدے دار تھے۔ پروگریسو، روشن خیال اور صاحب علم ہیں۔ کراچی کے بدترین ایام کو انھوں نے بھگتا ہے اور پس پردہ کہانیوں سے واقف ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ کہ اپنی معلومات کو تصدیق کے اعلی معیار کے مطابق جانچ کر پیش کررہے ہیں۔
جعفر بھائی اب تک تین قسطوں میں کراچی کی آنکھوں سے اوجھل کہانیاں لکھ چکے ہیں۔ اپنے توانا قلم سے مزید لکھ رہے ہیں۔
آج کی تحریر انسپکٹر ذیشان کاظمی کے بارے میں ہے۔ ہم انچولی میں ذیشان کاظمی کے محلے دار رہے۔ ان کے ایک بھائی کو کرکٹ کھیلتے دیکھا۔ وہ بے حد شریف النفس انسان ہیں۔ ذیشان کاظمی کی جیسی شہرت تھی، اس کے بالکل برعکس۔
اگر آپ کراچی میں نہیں رہے تو جعفر بھائی کی تحریروں کو انڈر ورلڈ کی کہانی سمجھ کر پڑھیں۔ مزہ آئے گا۔ اگر آپ کراچی میں ان دنوں میں رہے ہیں تو یہ تحریریں آپ کی جسم میں سنسنی کی لہر دوڑا دیں گی۔ پھر آپ خود کہیں گے کہ نوے اور سنہ دو ہزار کی دہائیوں میں بچ بچاکر زندہ رہنا واقعی بڑا کام تھا۔