Iran Israel Jang
ایران اسرائیل جنگ
جوہری طاقتیں اور ان کے علاوہ حساس خطوں میں سرگرم ممالک براہ راست جنگ نہیں کرتے۔ اس کے لیے پروکسیز پر انحصار کیا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی ملک کتنا ہی امن پسند کیوں نہ ہو، براہ راست حملے کا جواب دینا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایران نے پاکستان پر براہ راست حملہ کرکے یہ غلطی کی تھی۔ ایران کو دوست اور برادر ملک کہنے کے باوجود پاکستان کو جواب دینا پڑا۔
اسرائیل نے بھی وہی غلطی کی۔ دمشق میں ایرانی سفارتی دفتر پر حملہ کیا، غلط کیا۔ اس حملے کو قبول کیا، اور برا کیا۔ ایران کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن اس نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے نہ صرف پہلے امریکا کو اطلاع دے دی بلکہ حملہ بھی ڈرونز سے کیا۔ یعنی اسرائیل کو موقع دیا کہ وہ اپنا تحفظ کرلے۔ اگر یہ موقع نہ دیا جاتا تو اسرائیل کو فورا جوابی کارروائی کرنا پڑتی اور معاملہ قابو سے باہر نکل جاتا۔
جو لوگ ایران پر سست ڈرونز کی وجہ سے تنقید کررہے ہیں، انھیں ان معاملات کی سنگینی کا کچھ علم نہیں۔ لگتا ہے کہ انھوں نے کبھی نقشہ بھی نہیں دیکھا۔ شام اور حزب اللہ کی صورت میں ایران وہیں اسرائیل کی سرحد پر بیٹھا ہے۔ اگر شب خون مارنا ہوتا تو میزائل اور ڈرون دمشق یا لبنانی سرحد سے روانہ کیے جاتے۔ نہ کوئی اردن بیچ میں پڑتا اور نہ امریکی بحری بیڑوں کو خبر ہوتی۔ لیکن پھر خطے میں خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ کیا مشرق وسطی ایک اور جنگ جھیل سکتا ہے؟
ایک اور بات پاکستانی دانشور بھول جاتے ہیں کہ چین کو فراموش کردیں تو بھی پیوٹن ایران کا اتحادی ہے۔ شام میں امریکا، ترکی اور عرب ملکوں نے مل کر زور لگایا لیکن بشار الاسد کو نہیں ہلا سکے۔ یمن میں سعودی عرب نے پورا زور لگالیا اور کرائے کی فوجیں بھی منگوالیں لیکن حوثیوں کو نہیں ہراسکا کیونکہ ان کی پشت پر ایران ہے اور ایران کی پشت پر روس۔ یہ شطرنج ہے اور اسے کئی کھلاڑی مل کر کھیل رہے ہیں۔
آپ کی سمجھ میں کرکٹ تک نہیں آتی۔ پچاس پچاس سال کھیلنے اور دیکھنے کے باوجود اپنی ٹیم کے بارے میں نہیں بتاسکتے کہ اگلا میچ جیتے گی یا نہیں۔ تو پھر عالمی شطرنج جیسا کھیل آپ کی سمجھ میں کیسے آئے گا۔ ہیں؟