Footsteps
فٹ اسٹیپس
میں جب پہلی بار فلاڈیلفیا گیا تو ایڈگر ایلن پو کا وہ گھر تلاش کیا جہاں اس نے کہانی دا ٹیل ٹیل ہارٹ لکھی تھی۔ جب بالٹی مور گیا تو اس قبرستان کا رخ کیا جہاں پو کی قبر ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے بتایا تھا کہ ورجینیا کے شہر روئینوک گیا تو اس عمارت کا رخ کیا جہاں نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جون ناش نے ذہنی بیماری کے دنوں میں قیام کیا۔ جون ناش کی زندگی پر بنائی گئی فلم اے بیوٹی فل مائنڈ کو آسکر انعام ملا تھا۔
ایک بار زیارتی قافلے کے ساتھ ایران گیا تو گائیڈ نے نیشاپور کا بھی دورہ کروایا۔ وہاں امام زادوں کی قبریں ہیں جنھیں ظالم حکمرانوں نے قتل کروادیا تھا۔ قافلے کے لوگ ابھی اندر روضے میں نمازیں پڑھ رہے تھے کہ میں باہر نکل آیا۔ دیکھا کہ سامنے ایک سادہ سا مقبرہ اور ہے۔ میں نے راہ چلتے ایک ایرانی سے پوچھا، یہ کس کی قبر ہے؟ اس نے بتایا، عمر خیام کی۔
شیعہ دمشق میں صلاح الدین ایوبی اور نیشاپور میں عمر خیام کی قبروں کے پاس سے گزر جاتے ہیں، اپنے آئمہ اور امام زادوں کی قبروں کے برعکس انھیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ لیکن میں نے سارے سفر متجسس صحافی کی طرح کیے اس لیے زائرین کے برعکس ہر اس مقام کو تلاش کرتا رہا، جہاں تاریخ یا فنون لطیفہ کا کوئی حوالہ مل جائے۔
ایڈگر ایلن پو، جان ناش اور عمر خیام کے علاوہ بھی میں بہت سے ادیبوں شاعروں، مصوروں، فنکاروں، حریت پسندوں، اور مذہبی شخصیات کی قبروں یا قیام گاہوں یا کسی بھی عنوان ان سے متعلق مقامات کا دورہ کرچکا ہوں۔ ہر نئے شہر جاکر پہلی جستجو یہی ہوتی ہے۔
یہ کام اور بہت سے لوگ بھی کرتے ہیں اور پھر ان کا احوال لکھتے ہیں۔ یہ عام سفرناموں سے مختلف معاملہ ہوتا ہے جن میں مشہور مقامات اور بازاروں کا ذکر ہوتا ہے۔ امریکی اخبارات میں ایسے کالم نما سفرنامے چھپتے ہیں جن میں کوئی ادیب یا صحافی ماضی کے کسی شاعر ادیب کے شہر کا دورہ کرتا ہے اور اس کا حال لکھتا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے چند سال پہلے ایسے مختصر سفرناموں کا مجموعہ شائع کیا جس میں پینتیس چھتیس تحریریں شامل ہیں۔ یہ کئی پہلووں سے دلچسپ کتاب ہے۔ یعنی بڑے ادیبوں اور ان کے کام کا ذکر آیا، وہ کہاں رہے اور لکھنے کے علاوہ کیا کرتے رہے۔ یہ سفری کالم لکھنے والے بھی بڑے ادیب اور صحافی تھے۔ نیویارک ٹائمز کا معیار بہت بلند ہے۔ اس میں ہلکی تحریریں نہیں چھپتیں۔
اس اینتھولوجی کا عنوان ہے، فٹ اسٹیپس، لٹریری پلگریمجز اراونڈ دا ورلڈ۔ یعنی نقش قدم، دنیا بھر کی ادبی زیارات۔
امریکی ناول نگار جوئس مینارڈ نے چلی میں نوبیل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا کی قیام گاہوں کی سیر کی۔ انھوں نے لکھا:
مقامی ٹیکسی ڈرائیور کے مشورے پر ہم شہر سے باہر کچی سڑک پر آدھا میل آگے گئے۔ ادھر تھا وہ، شوریدہ سمندر کے سامنے پتھروں کا بنا ہوا پابلو نرودا کا پسندیدہ گھر، ایسلا نیگرا۔
یہ وہ گھر ہے جو پابلو نرودا نے اپنی دوسری بیوی ڈویلیا ڈیل سیرل [جس کا نک نیم لا ہورمیگوئیتا یعنی چھوٹی آنٹی] کے لیے خریدا تھا۔ اس نے کہا، وہ ایسی جگہ لینا چاہتا تھا جہاں بیٹھ کر وہ کانتو جنرل لکھ سکے۔ لیکن یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کسی شخص کو کانتو لکھنے کے لیے بوتلوں اور گلاسوں سے بھرا ہوا کمرا نہیں چاہیے ہوتا۔
مارک ٹوئن نے ہوائی میں چار ماہ گزارے تھے۔ نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن لارنس ڈاونز نے وہاں کا دورہ کیا۔ ان کے مضمون کا ایک پیراگراف:
ٹوئن نے لکھا، "تیس دن تک ہر رات اور ساری رات ان عجیب سوگواروں نے شاہی احاطے میں شمعیں جلائیں، ماتمی گیت گائے، اپنا مخصوص رقص کیا اور مرنے والے کے لیے بین کیا"۔
اب آپ وہاں صرف کاروں کا شور سن سکتے ہیں۔ وہ مقام ہونولولو میں ریاستی اسمبلی کے سامنے اب کاروباری علاقہ ہے۔ البتہ وادی نووانو، جہاں شہزادی کی تدفین کی گئی، کا تجربہ نہیں بھولا جاسکتا۔ جنازے کے دن ٹوئن نے وہاں جلوس کا انتظار کیا۔
پیپلز میگزین کے سابق ایڈیٹر لینڈن جونز نے ولادی میر نوبوکوف کا تعاقب کیا۔ ان کے مضمون کا ایک ٹکڑا:
کیرل لاجز، وہ موٹیل جہاں نوبوکوف نے قیام کیا تھا، ابھی تک شہر [ایفٹن، ریاست وایومنگ] کے مرکز میں موجود ہے۔ 1940 کی دہائی میں لکڑی سے بنے پندرہ سنگل یونٹ نصف دائرے کی صورت میں ہیں جن کے ایک جانب لکڑی ہی کا بنا ہوا دفتر ہے جہاں پہلے پیٹرول پمپ تھا۔ ناول لولیتا میں ایسا ہی کوئی کیبن تھا جسے بنانے میں استعمال ہوِئی صنوبر کی بلیاں دیکھ کر تیرہ سالہ ڈولورس ہیز کو بھنے ہوئے مرغ کی ہڈیاں یاد آگئی تھیں۔
امریکی تاریخ داں اور ادیب رسل شورٹو نے آئرلینڈ میں ژیٹس کے نقش قدم ڈھونڈے۔ ان کی تحریر سے چند جملے:
ژیٹس نے اپنی نظم انڈر بین بلبن میں اپنی قبر کا ذکر کیا تھا جو ڈرم کلف کے قریبی قبرستان میں تھی۔ دراصل یہ ایک اور ژیٹس کی قبر تھی جو اس کے خاندان کا کوئی بزرگ تھا۔ لیکن فرانس میں اس کی موت کے بعد اس کی میت کو یہاں منتقل کیا گیا جیسے لوگوں نے اس کی نظم کو آخری وصیت سمجھا۔
ارجن ٹینا کے ادیب بورخیس کی کہانیوں کو کئی مترجم اردو میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے جنوبی امریکا میں بیورو چیف لیری روہٹر نے ان کے شہر بیونس آئرس کی خاک چھانی۔ اس کی ایک جھلک:
پلیرمو کے علاقے میں اس سڑک کا رخ کریں جہاں بورخیس پلا بڑھا، جو اس وقت سرینو کہلاتی تھی لیکن اب اس کے نام سے موسوم ہے۔ آج شاید یہ بیونس آئرس کا سب سے پوش علاقہ ہے جس میں مقبول شراب خانے، ریستوران اور ملبوسات کی دکانیں ہیں۔ ان کے سرپرستوں میں نوجوان ادیب، فنکار اور فلمساز شامل ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ بورخیس کے بجائے پال آسٹر یا مارٹن ایمس سے متاثر ہوں۔
میں نے ہر سفرانچے سے فقط چند جملے لیے ہیں تاکہ آپ باقی تفصیلات کو امیجن کریں۔ جن ادیبوں شاعروں کے نقش ہائے قدم کا پیچھا کیا گیا ہے ان میں ایلس منرو، اورہان پامک، ارنیسٹ ہیمنگوے اور امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقا کے ممتاز نام شامل ہیں۔
افسوس کہ میں خواہش کے باوجود یہ کتاب شئیر نہیں کرسکتا کیونکہ یہ میری کنڈل لائبریری میں ہے اور پی ڈی ایف فی الحال دستیاب نہیں۔ اگر آپ ایمیزون سے ای بک خریدنا چاہیں تو اس کی قیمت فقط تین چار ڈالر ہے جو بدلے میں ملنے والی شاہکار تحریروں کے لیے کچھ بھی نہیں۔