Civil War
سول وار
چار مہینے سے نئی ملازمت اور دو کورسز میں اتنا مصروف ہوں کہ فلمیں نہیں دیکھ پارہا۔ اس عرصے میں بمشکل چار چھ دیکھی ہوں گی۔ کل شام اسکول میں ایک ایونٹ تھا اور میرے لیے گھر آکر دوبارہ جانا مشکل تھا۔ اس لیے دو گھنٹے گزارنے کو قریبی سنیما میں چلا گیا اور فلم سول وار دیکھی۔ کئی حوالوں سے یہ فلم میرے لیے ریلیٹ ایبل تھی۔
میں بتاچکا ہوں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد مجھے بابا نے جس پہلے ہیرو سے متعارف کروایا، وہ ابراہام لنکن تھا۔ لنکن وہ امریکی صدر تھا جس نے سول وار جیتی اور غلامی کا خاتمہ کیا۔ پھر اس کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ میں نے بچپن میں اس کی سوانح پڑھ لی تھی اور سول وار کے پس منظر اور واقعات سے آگاہ ہوگیا تھا۔
اب اسکول میں ہسٹری پڑھا رہا ہوں اور سول وار امریکی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ اس سے بار بار واسطہ پڑتا ہے۔
لیکن فلم سول وار ماضی نہیں، مستقبل کی کہانی ہے۔ یعنی امریکا میں ممکنہ دوسری خانہ جنگی کی۔ یہ فلم ایک برطانوی، یعنی غیر امریکی ڈائریکٹر نے بنائی ہے، اس لیے اس نے وائلڈ امیجی نیشن سے کام لیا ہے۔
کہانی یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر صدر کی وجہ سے امریکا کی ریاستوں میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ ٹیکساس اور کیلی فورنیا نے اتحاد بناکر علیحدگی کا اعلان کردیا ہے اور ان کی فوجیں واشنگٹن ڈی سی پر قبضے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔
یہ پس منظر ہے۔ اصل کردار سیاسی یا فوجی نہیں، چار صحافی ہیں جو خانہ جنگی کی رپورٹنگ کررہے ہیں۔
لنکن کا پرستار اور ہسٹری ٹیچر ہونے کے بعد یہ میرے لیے فلم میں دلچسپی کا تیسرا حوالہ بنا۔
مزید یہ کہ میں ان دنوں شام اور عراق جاچکا ہوں جب وہ خانہ جنگی سے متاثر تھے اور ہر شہر اور قصبے میں تباہی کے آثار تھے۔ ہر قدم پر موت نظر آتی تھی۔ اس فلم میں بھی ویسے ہی مناظر موجود ہیں۔ ایک عام امریکی ان مناظر سے شاید ویسے متاثر نہ ہو لیکن میری کیفیت مختلف تھی۔
باغی فوجیں آخر میں واشنگٹن پہنچ جاتی ہیں اور ان گلیوں میں لڑائی ہوتی ہے جہاں میں نے تین سال اوبر چلائی ہے۔
آخری سین میں باغی فوجی وائٹ ہاؤس میں گھس جاتے ہیں اور صدر کو دیکھ کر بندوقیں سیدھی کرلیتے ہیں۔ تب ایک رپورٹر انھیں روک کر کہتا ہے، ٹھہرو، مجھے صدر کا ایک کوٹ چاہیے۔ فوجی رک جاتے ہیں۔ خوفزدہ صدر کہتا ہے، ان سے کہو، مجھے قتل نہ کریں۔ پروفیشنل رپورٹر مطمئن ہوکر کہتا ہے، ہاں، یہ چلے گا۔
فلم میں کئی بھنڈے ہیں۔ ٹیکساس ریڈ اسٹیٹ ہے اور کیلی فورنیا بلو۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا اتحاد نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں کسی صدر کا ڈکٹیٹر بننا ممکن نہیں کیونکہ ٹرمپ کے نائب صدر تک نے آئین کی خلاف ورزی سے انکار کردیا تھا۔ ڈی سی تک کسی باغی جتھے کا پہنچنا بھی ناممکن ہے کیونکہ پینٹاگون چار قدم پر ہے۔
خیر، وائلڈ امیجی نیشن اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن امریکی نظام میں بہت سے چیکس اینڈ بیلنسز ہیں اور کسی صدر، چیف جسٹس یا آرمی چیف کا من مانی کرنا ممکن نہیں۔ امریکی تاریخ، آئین اور اسٹیبلشمنٹ سے ناواقف شخص ہی ایسی فلم بناسکتا تھا۔
اس کے باوجور میں چاہوں گا کہ آپ یہ فلم دیکھیں کیونکہ یہ صحافیوں کی زندگی پر ہے۔ اگر ایک لفظ میں اس فلم پر تبصرہ کرنے کو کہا جائے تو وہ لفظ ہوگا، Intense۔