Balochistan Aur Agla Wazir e Azam
بلوچستان اور اگلا وزیراعظم
درد دل رکھنے والا کوئی بھی شخص بلوچ خواتین کی ریلی اور مطالبات کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جو نعرے لگانے، ریلی نکالنے اور سوشل میڈیا ٹرینڈ بنانے سے حل نہیں ہوسکتا۔
میری ناقص رائے کے مطابق بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے۔ یہ مشرقی پاکستان نہیں ہے جو مغربی حصے سے دو ہزار میل دور تھا۔ پاکستان کے ٹوٹنے کی بہت باتیں کی جاتی ہیں۔ ایسا بھی کم از کم پچاس سال تو نہیں ہونے والا۔
وجہ؟ پاکستان کا وجود امریکا، چین، ہندوستان سب کے مفاد میں ہے۔ چین اربوں ڈالر اس افغانستان پر لگا رہا ہے۔ جس کی حکومت کو دنیا تسلیم نہیں کرتی۔ بلوچستان پر تو پہلے سے سرمایہ کاری کررہا ہے۔ بلوچستان میں نوجوانوں کا لاپتا اور قتل ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بلاشبہ یہ ظلم ہے۔ لیکن پاکستان میں اور کیا ٹھیک ہورہا ہے؟
اسی بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا قتل عام ہوا۔ کتنے دھماکے، کتنی ٹارگٹ کلنگ ہوئی، ابھی بھی امان نہیں۔ کتنے لوگ ان کی حمایت میں نکلے؟ قاتلوں کا سرغنہ مقامی ہی ہے، قوم پرست نہ سہی، مذہبی شدت پسند ہے، لیکن مقامی سرداروں نے ہزارہ والوں کی لیے کیا کیا؟ عملا کچھ بھی نہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان میں کئی بیرونی قوتیں سرگرم ہیں۔ عام نوجوان یہ کھیل نہیں جانتا۔ ٹریپ ہوجاتا ہے۔ جو ٹریپ ہوگا، اسے نقصان ہوگا۔ نوجوان قوم پرستی یا آزادی کے نام پر ٹریپ ہورہے ہیں۔ پوری ایک نسل فنا ہوگئی ہے۔ کس امید پر؟
پاکستان کی عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔ صرف عام شہری نہیں، حکومتوں کو بھی۔ پکے مجرم بھی رہا ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں زورآور چاہے سویلین ہو یا فوجی، وہ اپنے مجرم کو خود سزا دینے کو ترجیح دیتا ہے۔
کبھی یہ سوچا ہے کہ بلوچستان میں اتنی شورش کے باوجود پنجابی مزدور کیوں کام ڈھونڈے چلے جاتے ہیں؟ فیس بک پر کسی نے لکھا کہ یہ مزدور نہیں، ایجنسیوں کے ویسے ہی ہرکارے ہوتے ہیں، جیسے ریمنڈ ڈیوس سے جھڑپ میں مارے گئے تھے۔ واللہ اعلم۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل تب ملے گا جب مسائل کا ادراک ہوگا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فریقوں اور شریکوں کو ادراک نہیں ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آزادی ممکن نہیں ہے۔ فوج کو سمجھنا ہوگا کہ لاپتا کرنا غیر انسانی سلوک ہے۔ سیاسی قائدین اور بلوچ سرداروں کو سمجھنا ہوگا کہ کچھ مسائل سیاست اور الیکشن سے ہٹ کر اہم ہوتے ہیں۔ انھیں کسی مفاد کے بغیر حل کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ غیر سیاسی قوتیں طاقتور ہوجاتی ہیں۔ ملک کے کسی ایک حصے میں بھی فوج معاملات چلائے گی تو وہ موقع اسے پورا ملک چلانے کا اعتماد فراہم کرے گا۔ فوج کو اس کی ڈومین تک رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے کسی حصے میں اسے معاملات نہ سنبھالنا پڑیں۔
پاکستان میں اس وقت تک مکمل سیاسی بالادستی والی حکومت نہیں آسکتی، جب تک کراچی میں رینجرز اور سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں فوج موجود ہے۔ ان کی واپسی بھی ایک دن میں نہیں ہوسکتی۔ کئی سمجھ دار آرمی چیف ایک کے بعد ایک آئیں تو رفتہ رفتہ پوزیشن بدلے گی۔ لیکن قوم بے صبری ہے۔ صحافی اور یوٹیوبر چار جوتے آگے ہیں اور اگلا وزیراعظم نواز شریف ہے، جو حلف بعد میں اٹھاتا ہے، آرمی چیف کو نتھ ڈالنے کا منصوبہ پہلے بنالیتا ہے۔