Balay
بالے
وہ آخری آدمی تھے جو مجھے بالے کہا کرتے تھے۔
امروہے والے صرف امروہے کے بچوں کو بالے کہتے ہیں۔ باہر والوں سے کتنا ہی پیار کیوں نہ ہو، اس انداز میں مخاطب نہیں کرتے۔ یہ بھی خیال رہے کہ امروہا برادری سے باہر کی پوری دنیا باہر والی ہے۔
نانی اماں سے بالا سنا تھا۔ دادی اماں کو زیادہ پیار آتا تو میرا بالا، میرا بلوا، میرا بلا کہہ کہہ کر چومتیں۔ تہائی صدی بعد کسی سے اپنے لیے یہ لفظ سن کر بہت مزہ آیا۔
بالے، آج والی کہانی نہ چھپنے کی۔ دوسری بھیج دو، وہ فون پر کہتے۔ میں ہنس کر کہتا، اچھا حیدر صاحب۔ ابھی ای میل کرتا ہوں۔
ان کا نام حیدر تقی تھا۔ جنگ کے پہلے ایڈیٹر اور نامور فلسفی سید محمد تقی کے بیٹے تھے، رئیس امروہوی اور جون ایلیا کے بھتیجے۔ ہر وقت ہنستے مسکراتے رہتے۔ کچھ تو صورت ایسی تھی اور کچھ انھیں ہنسی مذاق کی عادت تھی۔
ایک دن انھوں نے اپنے والد کی کتاب مجھے دی۔ میں نے کہا، یہ میرے پاس ہے۔ میں نے پڑھی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا، بالے، یہ والی رکھ لو۔ وہ والی کسی پڑھے لکھے آدمی کو دے دینا۔ میں نے کہا، پڑھے لکھے لوگ کتابیں کہاں پڑھتے ہیں۔
امروہے کا ہونے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے نجی باتیں کرلیا کرتے تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ دفتر سے باہر ان سے چند ایک ہی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ بھی کسی تقریب میں۔
امریکا آنے کے بعد ان سے کئی بار فون پر بات ہوئی۔ آواز میں وہی شگفتگی تھی۔ جنگ والوں کے ایک دو لطیفے بھی سناتے۔ جب میری کہانی بند کیے جانے کا فیصلہ ہوا تو انھوں نے کہا، بالے، جو تمھارے لچھن ہیں، اب تم یہاں نہ چھپنے کے۔
آج معلوم ہوا کہ وہ کافی دنوں سے بیمار تھے۔ پتے کا کینسر جان لے گیا۔ پتا چھوٹا سا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آپریشن کرکے نکال پھینکتے ہیں۔ لیکن وقت پر پتا نہ چلے تو کینسر جگر میں سرایت کرجاتا ہے۔ میری چھوٹی ممانی کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ بھی بہت ہنس مکھ تھیں۔ موت کو مسکراہٹیں پسند نہیں آتیں۔
افسوس میں ان سے رابطہ برقرار نہیں رکھ سکا۔ رابطہ ہوتا اور آخری دنوں میں کال کرتا تو وہ جنگ کا کوئی لطیفہ سناکر یہی کہتے، بالے، بس ہوگئی، اب ہم اور نہ جینے کے۔