Angrezi Kese Seekhen?
انگریزی کیسے سیکھیں؟
بعض بڑے کھلاڑی کیوں اچھے کوچ نہیں بن پاتے اور کئی دوسری صف کے کھلاڑی کیوں اچھے کوچ ثابت ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ ہے کہ بڑے کھلاڑیوں میں قدرتی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور دوسری تیسری صف کے کھلاڑیوں کو محنت اور مشق کرکے تکنیک سیکھنا پڑتی ہے۔
یہی معاملہ زبان سکھانے والوں کا ہے۔ جن کی مادری زبان انگریزی ہو، جیسے امریکا میں میرے بیشتر کولیگ، یا جنھوں نے پہلے دن سے اچھے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہو، جیسے میرے بچے، وہ ٹھیک سے اندازہ نہیں لگاسکتے کہ مجھ جیسے اردو میڈیم لوگوں کو آدھی پونی عمر گزارنے کے بعد انگریزی روانی سے بولنے اور لکھنے میں کس قدر مشکل پیش آتی ہے۔
لیکن اس مشکل کا ایک فائدہ ہوسکتا ہے، اور مجھے ہوا ہے کہ دوسروں کو، خاص طور پر انگلش لرنرز کو زبان سکھانے اور پڑھانے کی تکنیک معلوم ہوجاتی ہے۔ ذاتی تجربہ کام آتا ہے اور تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔
مجھ سے کئی دوستوں نے پوچھا ہے کہ انگریزی بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا درست جواب میں آپ کو تب دے سکتا ہوں جب یہ پتا ہو کہ آپ کہاں رہتے ہوئے انگریزی بہتر کرنے کی کوشش کریں گے؟ اور صرف بولنا سننا چاہتے ہیں یا لکھنا پڑھنا بھی؟
اگر آپ کی اسکولنگ پاکستان کی ہے، آپ اعلی معیار کے انگریزی اسکولوں میں نہیں پڑھے، اور کالج یونیورسٹی پاس کرچکے ہیں تو آپ کو روانی سے انگریزی بولنے میں مسائل رہیں گے۔ اگر آپ کسی انگریزی بولنے والے ملک میں کچھ عرصہ نہیں رہیں گے تو روانی شاید کبھی حاصل نہ کرپائیں۔
کسی زبان میں روانی کے لیے اس کے ماحول میں وقت گزارنا ضروری ہے۔ یہ عرصہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوسکتا ہے۔ عام آدمی، جو زبان سیکھنے کا شوق رکھتا ہو یا ایسی مجبوری لاحق ہوجائے تو چھ ماہ میں گزارے لائق روانی آجاتی ہے۔ اس میں سائلنٹ پیریڈ شامل ہے۔ سائلنٹ پیریڈ اس وقفے کو کہتے ہیں جب کوئی شخص انگریزی سمجھ لیتا ہے، ابتدائی گفتگو کے قابل ہوتا ہے لیکن بولتے ہوئے جھجکتا ہے۔
صرف بولنا کافی نہیں ہوتا۔ مختلف لہجے سن کر بات سمجھنا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں شاید یہ بڑا مسئلہ نہیں لیکن امریکا میں بہت سے لہجے ہیں اور بہت سے سلینگ۔ انھیں سمجھنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ ہولی ووڈ کی فلمیں زیادہ سے زیادہ دیکھیں۔
پاکستان میں بہت سے وہ لوگ جو انگریزی بول نہیں پاتے، پڑھ پھر بھی لیتے ہیں کیونکہ یہ ہر اسکول کے نصاب میں شامل ہے۔ انگریزی بہتر بنانے کے خواہش مندوں کو چاہیے کہ آسان زبان کی کہانیاں پڑھیں، پھر ناولز کی طرف جائیں۔ کتابیں پڑھے بغیر آپ انگریزی کا مزاج نہیں سمجھ سکتے۔
آخری معاملہ انگریزی لکھنے کا ہے۔ یہ ہنر سب سے آخر میں آتا ہے۔ اگر آپ نے صرف ای میل یا درخواستیں لکھنی ہیں تو اتنی انگریزی آپ کو پہلے ہی آتی ہوگی۔ لیکن اکیڈمک رائٹنگ اور اس کے بعد کری ایٹو رائٹنگ کے لیے پتا مارنا پڑتا ہے۔ بیشتر امریکی اور برطانوی بھی اس قابل نہیں ہوتے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کوئی شخص اگر انگریزی بولنے والوں کے ماحول میں رہے تو سوشل لینگویج، یعنی رابطے کی زبان سیکھنے، بولنے اور سمجھنے میں ناکام نہیں ہوسکتا۔ چھ ماہ میں کسی حد تک روانی آجاتی ہے۔ اس کا انتہائی درجہ وہ ہوتا ہے جب کوئی شخص نیٹو یعنی مقامی لوگوں کی طرح محاورے، لطیفے، ذومعنی گفتگو اور سلینگ بولنے سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس حد کو پہنچنے میں چھ سال لگ سکتے ہیں۔
دوسری جانب یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص زندگی بھر انگریزی بولنے والے ملک میں رہے لیکن اکیڈمک لینگویج نہ سیکھ سکے۔ جب مقامی لوگ اس کمال کو نہیں پہنچ پاتے تو غیر زبان کے لوگوں کی ناکامی پر کیسی حیرت۔ لیکن اس کے لیے انگریزی کا ماحول لازمی نہیں۔ اس کے کورس گھر بیٹھے کیے جاسکتے ہیں اور مسلسل مشق اچھا لکھنے کے قابل بنادیتی ہے۔