Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Hassan
  4. Saneha 9 May Aur Riasat e Pakistan

Saneha 9 May Aur Riasat e Pakistan

سانحہ 9 مئی اور ریاست پاکستان

نو مئی تاریخ پاکستان میں یومِ سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ 9 مئی وہ دن کہ جب شدید غم و غصے میں مبتلا PTI کے کارکنان پاکستان کے سول اور ملٹری تنصیبات پر حملہ آور ہوۓ جن میں سرِفہرست کور کمانڈر ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو اسلام آباد، اور میانوالی ائیربیس شامل ہیں۔ جبکہ کچھ فوٹیجز ایسے بھی موصول ہوئے جہاں لوگوں نے پاک فوج کے سپاہیوں پر بھی پتھراؤ کیا۔ یہ تمام واقعات نہایت افسوسناک اور شدید قابلِ مذمت تھے، ہیں اور رہیں گے۔

9 مئی کے واقعات کے بعد ریاست نے اپنی رِٹ کی بحالی کا فیصلہ کیا اور دفاعی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن 9 مئی کا واقعہ اپنے وقوعہ کے پیچھے بہت سے سوالات جنم دے گیا۔ ان میں سے یہ سوال بھی اپنی جگہ ہی موجود ہے کہ کس طرح لوگ اتنے حساس علاقوں میں باآسانی اور بلارکاوٹ داخل ہو گئے؟ کیوں شیلنگ، واٹر کینن، یا لاٹھی چارج سے لوگوں کو روکنے کی کوشش تک نہ کی گئی اور اس کے باوجود لوگ سوشل میڈیا پر فوٹیجز ڈال رہے ہیں کہ ہم کور کمانڈر ہاؤس یا بقیہ حساس جگہوں کی طرف مارچ کرتے ہوئے پہنچ رہے ہیں۔ کیوں بروقت حکومتی یا دفاعی ادارے کی طرف سے کوئی واضح تنبیہ نہ کی گئی؟ اور کیوں ریاستی مشینری کو متحرک نہ کیا گیا؟

آئیے ہم اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کے لئے اس سوال کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہو سکتا ہے کہ ادارے اس جذباتی ہجوم سے ٹکراؤ کے موڈ میں نہ تھے اور آرمی اپنے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کسی قسم کے کوئی فاصلے یا دوریاں نہیں پیدا کرنا چاہتی تھی یا دوسرا پہلو جو کہ PTI پیش کرتی ہے کہ انہوں نے ان واقعات کو بنیاد بنا کر PTI کو کالعدم قرار دینا تھا۔ بہرحال وجہ جو بھی تھی لیکن چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی 9 مئی یہ سانحہ واقع ہوگیا۔

9 مئی کے واقعات میں ملوث تقریباً 90٪ لوگوں کا تعلق واضح طور پر پاکستان تحریکِ انصاف سے تھا۔ جبکہ 10٪ کا میں مارجن دیتا ہوں کہ جس میں ممکن ہے کہ کچھ بیرونی شرپسند عناصر ملوث ہوں۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد اگر خان صاحب کھلے دل سے پُرزور مذمت کرتے تو معاملات بہتری کی طرف جا سکتے تھے لیکن خان صاحب نے الزام ایجنسیز پر ڈال دیا اور اپنے ہی بندوں کو اپنا ماننے سے انکاری ہو گئے۔ 9 مئی کے واقعے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے ان واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور 9 مئی کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کا اعادہ کیا۔

کچھ ہی دنوں کے بعد ہونے والی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی واقعات میں ملوث شرپسندوں کو قرار واقع سزا دینے کا اعلان کیا اور پھر وفاقی کابینہ نے قومی سلامتی کمیٹی میں ہونے والے فیصلوں کی توثیق کر ڈالی۔ جس کے تحت سول املاک کو نقصان پہنچانے والوں کا اے ٹی سی جبکہ ملٹری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے آرمی ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔ ریاستِ کی مشینری متحرک ہوئی اور مجرموں کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کیا گیا اور تقریباً 30 سے زیادہ ملزمان جو کہ دفاعی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تھے ان کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لئے ملٹری کے حوالے کر دیا گیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ریاست نے جس طرح سے ان شرپسند عناصر کے خلاف کاروائی کی ہے، اب کوئی اس طرح کی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن آرمی کو موجودہ وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کے اور عوام کے بیچ اتنی دوریاں کیسے ہوئیں؟ محبت کا یہ مضبوط رشتہ کیوں ناتواں اور کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس طرح رینجرز نے احاطہ عدالت میں گریبان سے پکڑتے ہوئے خان صاحب کو گرفتار کیا۔

چونکہ رینجرز آرمی کے ماتحت ادارہ ہے، لوگوں نے اس کو یوں محسوس کیا جیسے آرمی براہ راست یہ کاروائی عمل میں لائی ہو۔ لیکن اب معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے اور ریاست کو حقیقی ماں بننے کی ضرورت ہے تاکہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج کو کم کیا جا سکے۔ اس ٹائم لوگوں سے جبری طور پر پارٹی چھوڑنے اور ان پر ملٹری ٹرائل سے دوریاں مزید بڑھیں گیں۔ میرے خیال سے ریاست نے اس وقت اپنی طاقت دکھائی ہے اور لوگ بھی خاصے سہم سے گئے ہیں۔

اگر دشمن ملک سے حملہ کرنے والے ابھی نندن کو جذبہ خیر سگالی کے تحت معاف کیا جا سکتا ہے تو اپنے ہی ملک میں بسنے والے پاکستانیوں کو کیوں نہیں۔ میرے خیال سے ریاست کو اس وقت حقیقی ماں کا روپ دھارتے ہوئے اپنے بچوں کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے انہیں معاف کر دینا چاہیے۔ یہیں پر اپنے قلم سے بہتے لفظوں کو روکتے ہوئے اجازت چاہوں گا۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan