Qissa Intikhabat 2024 Ka
قصہ انتخابات 2024 کا
الیکشن 2024 کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکنے سے پہلے ہی نواز لیگ کو بھرپور تپش فراہم کر رہا ہے جس کا مظہر حال ہی میں ہوئے اتحاد ایم کیو ایم میں نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کو ہواوں کا رخ اور سورج کی سمت کا بخوبی اندازہ اور بڑوں کے نظر کرم سے ہی انہوں نے اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔
نواز لیگ کے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے پر زور و شور سے عمل جاری ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ میں چیئرمین تحریک انصاف کو جیل میں ڈالنا، نااہل کرنا، الیکشن کمپین کی کھل کر اجازت نہ دینا، تحریک انصاف کے بااثر رہنماؤں و قائدین کو گرفتار کرنا اور الیکشن میں ایک کمزور ترین تحریک انصاف کو اجازت دینا شامل ہے۔ وقت اپنے آپ کو دہرا رہا ہے اور جس طرح فیلڈ کو 2018 میں طرح سیٹ کیا گیا تھا اس بار بہی ویسے ہی سیٹ کیا گیا لیکن فیلڈرز کی تعداد میں مزید اضافہ کیا گیا ہے جس سے سختیاں مزید بڑہیں گیں۔
2018 میں نوازشریف پاناما اور ایون فیلڈ کے نام پر اسٹبلیشمنٹ کے زیر عتاب آئے تو آج عمران خان توشہ خانہ، سائفر اور القادر ٹرسٹ کے نام پر۔ عمران خان کے دور میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ تھے تو آج شاہ محمود قریشی، شہرریار آفریدی، عمر سرفراز چیمہ اور یاسمین راشد ہیں۔ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ 2018 میں ن لیگ کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی تو 2023 میں پی ٹی آئی کے ساتھ لیکن تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شدت نواز لیگ کے مقابلے میں کہیں ذیادہ ہے۔
اس وقت بھی میڈیا نے عمران خان کو مسیحا اور نجات دہندہ بنا کر پیش کیا اور 24/7 جلسوں اور ریلیوں کی کوریج کی جاتی لیکن آج وہی میڈیا نوازشریف کو پروٹوکول فراہم کر رہا ہے اور عمران خان کا نام تک نہیں لیتا۔
اہل نظر سیاسی و صحافتی حلقہ 2024 میں نواز لیگ کو اقتدار میں دیکھ رہا ہے۔ تین بار وزارت عظمی کی باگ دور سنبھالنے والے نوازشریف کیا چوتھی بار بھی وزیراعظم کی شیروانی زیب تن کریں گے؟ بظاہر تو نواز شریف کی واپسی اور ان کا باجوہ و فیض کے احتساب کے نعرے سے آنکھیں چرانا اور مینار پاکستان پر مفاہمت و محبت کا پیغام ان کا چوتھی بار وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ یوں 2024 کا الیکشن، الیکشن نہیں سلیکشن ہوگی، 2018 کی طرح کہ جہاں ایسے امیدواروں نے بھی کامیابی سمیٹی کہ جن کا امکان تک موجود نہ تھا اور پھر آزاد امیدرواوں کو تحریک انصاف میں شامل کروانا اور اکثریت کے حصول کے لیے دیگر سیاسی کے ساتھ اتحاد کروانے کا سہرا بھی بھائی لوگ کے سر پر ہی سجتا ہے۔
2024 میں دہاندلی کروانا اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک بڑا چیلینج ہے کیونکہ 2018 کے برعکس اس بار ایسی جماعت ضرور موجود ہے کہ جو دو تہائی اکثریت رکھتی ہے اور اسے بقیہ ماندہ جماعتوں پر واضح برتری حاصل ہے۔ 2018 میں نون اور جنون کی مقبولیت میں خاصا فرق نہی تھا لیکن اب دونوں کی مقبولیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
بہرحال جو بھی ہو جمہوریت کے تسلسل کے لئے الیکشن 2024 میں ضرور ہونے چاہئے، صاف و شفاف ہونے چاہئے اور تمام جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے چاہئے تاکہ پاکستان میں سیاسی و معاشی استحقام لایا جا سکے۔