Saturday, 29 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Moazzam Ali
  4. Afv o Darguzar

Afv o Darguzar

عفو و درگزر

کسی دن اچانک خبر ملتی ہے کہ فلاں ابنِ فلاں قضائے الٰہی سے رحلت فرما گیا ہے اور اُس کی نمازِ جنازہ مقررہ جگہ و متعیّن وقت پر ادا کی جائے گی تمام احباب شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔ دوست واحباب، رشتےدار اور ملنے ملانے والے سبھی اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق مرحوم کی آخری رسومات ادا کرنے کی تگ ودو میں جُت جاتے ہیں۔ مرحوم کو تمام شرعی رسوم و رواج کے مطابق سپردِ خاک کر دیا جاتا ہے اور اِس کے بارے میں لوگوں کی زبان پر ملے وجلے تاثرات کا رحجان پایا جاتا ہے۔

اُس کے نیک اعمال کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے اور اُس کے بُرے اعمال بھی دبے لفظوں میں ہونی والی چہ مگوئیوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور وقت آہستہ آہستہ اِن تمام عناصر کو تاریخ کے صفحوں میں دباتا چلا جاتا ہے۔ مرحوم کی یادیں لوگوں کے ذہنوں سے محو ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور لواحقین بھی رفتہ رفتہ اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہو جاتے ہیں اور حسب سابق ماضی کی گَرد میں وہ شخص قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔

پھر ایک اور دن اچانک نقارہ بجا دیا جاتا ہے۔ محشر کا ساماں بندھنے لگتا ہے، لوگ جوق در جوق اپنی اپنی قبور سے نکل کر میدانِ محشر میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ تمام اولین و آخرین صفین بنائے ہاتھ باندھے اپنے خالق و مالک کے حضور کھڑے ہیں۔ حساب وکتاب کا وقت آن پہنچتا ہے اور پھر منادی دینے والا ندا دیتا ہے کہ فلاں ابنِ فلاں شخص کو جہنم واصل کر دیا جائے۔ تو وہی شخص جب اپنے نام کو سنتا ہے تو سکتے میں آجاتا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔ مجھے تو اس طرح کا حکم صادر ہونے کی امید نہیں تھی۔

وہ اپنی دنیوی زندگی کے معاملات کو جشمِ تصور میں لاتا ہےکہ میں نے تو لوگوں کے لئے بظاہر بہت سارے بھلائی کے کام کئے ہوئے ہیں، ہسپتال بنائے، تعلیمی ادارے کھڑے کئے، سڑکیں بنائیں، صدقہ و خیرات کئے اور لنگر خانے کھولے حتیٰ کہ اُس کی فہرست طویل ہوتی جائے گی جن سے یہی واضح ہوا کہ اِن کئے گئے اعمال کے بدلے میں جنت کا پروانہ ملنا چاہئے تھا کہ انہی تصورات میں گم کھویا ہوا تھا کہ فرشتے اُسے جہنم کی طرف ہانک کر لے جا رہے ہوتے ہیں۔

وہ آہ وگریہ زاری کرنے لگ جاتا ہے، آنسوؤں کا سیلِ رواں جاری ہوجاتا ہے، ہجکیاں بندھ جاتی ہیں اور چار سو نظر دوڑاتا ہے کہ کوئی اُس کی مدد کو آئے مگر کسی بھی طرح کی شنوائی نہیں پاتی۔ اُس کی یہ آہ و بکاہ رب العالمین کی جناب میں پہنچتی ہے تو اُس طلب کر لیا جاتا ہے۔ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے انسان کو لب کشائی کی اجازت مرحمت فرمائی جاتی ہے تو وہ اپنی ساری کارگزاری علیم بذات الصدور کے حضور پیش کرتا ہے۔

بارگاہِ ایزدی سے جواب ملتا ہے کہ تمہیں جہنم کا پروانہ اس لئے تھمایا گیا ہے کہ تم میرے عیال سے بہت بری طرح پیش آتے تھے، تمہارا لہجہ بہت درشت ہوتا تھا، دوسروں پر جھوٹے الزام لگاتے تھے، نام بگاڑنے کے ساتھ ساتھ بُرے القابات سے مخاطب کرتے تھے، انسانوں کی عزتوں کا رسوا کرتے تھے، لوگوں کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرتے تھے۔ کوئی بھی تمہارے شر سے محفوظ نہیں رہا تھا۔

کسی کا عیب تمہیں معلوم پڑتا تو اُسے بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے نیچا دیکھانے کے لئے پیش کرتے تھے اور یہ سب صرف اس لئے کرتے تاکہ تمہیں شہرت ملے، اقتدار ملے اور تم دوسروں کی زندگیاں اجیرن کر سکو، انہیں ذلیل و رسوا کر سکو، لوگوں کی دل آزاری کرتے رہنا تمہارا وطیرہ بن چکا تھا جس کے سبب تمہارے گناہوں کی فہرست بہت طویل ہو چکی ہے جس کی بنا پر تمہیں جہنم کے سپرد کیا جا رہا ہے اور جس طرح تم میرے (اللہ کے) عیال کو پرکاہ کی وقعت نہیں دیتے تھے بعینہ آج تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ کیا جائے گا اور حکم صادر ہوگا کہ اِسے اِس کے مقررہ مقام تک پہنچا دیا جائے (الآمان الحفیظ)۔۔

تو ایسے شخص کی بے بسی و لاچاری پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے لیکن آج کا انسان ایسی نظر سے اس لیے غافل ہوچکا ہے کیونکہ اُس نے روزِ محشر کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے۔ اُسے جوابدہی کا گمان بھی چھو کر نہیں گزرتاکہ ایک دن حساب کا آنے والا ہے۔ اس لیے ہر فرد کو آگاہ رہنا چاہئےکہ جو آج بوئے گا وہی کل بروزِ قیامت کاٹے گا بھی۔

آج صبر وتحمل سے زندگی میں آنے والی مشکلات پر تشکرانہ رویہ اپنائے گا تو کل اجر بھی اُسی قدر بہتر ملے گا۔ آج کانٹے بوئیں گے تو کل کو پھول کھلنے کی امید ہرگز نہیں رکھنی چاہئے لیکن اِس سے ظلم وستم کرنے والوں کو حوصلہ نہیں پکڑنا چاہئے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں کل کو کل ہی دیکھا جائے گا۔ یاد رکھنی چاہئے یہ بات کہ جو آگ دوسروں کا گھر جلانے کے لئے بھڑکائی جائے گی وہی آگ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے مبتدا کی طرف ضرور لوٹے گی اور زیادہ شدت سے لوٹے گی کیونکہ آگ! جذبات، احساسات اور ہمدردی جیسے عناصر سے مبرّا ہوتی ہے اُسے صرف ایندھن درکار ہوتا ہے جو اُس کے وجود کو دوام بخشنے کے لئے ضروری ہوتا ہے اور وہ ایندھن ہر صورت اُسے میسر ہوجاتا ہے لہذا معاف کرنا سیکھئے، عفو و درگزر کرنے جیسے عمل کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لینا چاہئے تاکہ جیسا کروگے ویسا بھروگے کے مصدق ہم سے بھی درگزر کا معاملہ کیا جائے تاکہ امن و سکون کی زندگی دونوں جہانوں میں نصیب ہو۔

Check Also

Angela Merkel Autobiography

By Rauf Klasra