Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Digital Tawaif Ul Malooki

Digital Tawaif Ul Malooki

ڈیجیٹل طوائف الملوکی

ایک زمانے میں طوائف کا پیشہ بدنام ترین پیشہ تھا۔ اس لیے طوائف کے پیشے کا نام لینا بھی برا سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ وقت ہے کہ طوائف کا پیشہ کرنے والی کو طوائف کہنا برا سمجھ لیا گیا ہے۔

طوائف ایسی عورت کو کہا جاتا تھا جو پیسوں کے بدلے اپنا جسم اور ادائیں بیچتی تھی۔ بہت سی طوائفیں تھیں ماضی میں کہ جو ایک خاص وقت تک اپنی جسمانی خوبصورتی کی صرف جھلک کو بیچتی تھیں، مگر جسم کو کسی نواب یا نوابزادے کے لیے محفوظ رکھتی تھیں۔

مختلف نواب نوٹوں کے بھرے تھیلے بھیج کر اس نوجوان طوائف کی مالکہ، نائیکہ یا ماں (جو بھی سمجھ لیں) کو راضی کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ اس لڑکی کے جسمانی حقوق ان کو دیدیے جائیں۔ پھر وہ عورت جو چکلہ (طوائفوں کا اڈہ) چلایا کرتی تھی ایک گھاگ کاروباری کی طرح تمام آفرز کا جائزہ لیا کرتی تھی اور بالاخر کسی ایک خوشقسمت کا ٹینڈر منظور کر لیا جاتا تھا اور وہ نوجوان رقاصہ جو شام کو اپنے اڈے پر ناچا کرتی تھی، اب اس نواب کی رکھیل بن کر اس کے کسی مکان میں شفٹ ہو جایا کرتی تھی (اور طوائفوں میں اس کو بہت باعزت مقام سمجھا جاتا تھا، کیونکہ یہ صرف خوبصورت اور کمسن طوائفوں کو نصیب ہوتا تھا)۔

کچھ مہینے، سال کے بعد جب نواب صاحب کا دل بھر جایا کرتا تھا، یا مارکیٹ میں نئی رقاصہ کے حسن کے چرچے ہونے لگتے تھے تو پرانی کو واپس بھیج دیا جاتا تھا۔ اب پرانی رقاصہ واپس اپنے اڈے پر حسب معمول ادائیں بیچنے کا کام شروع کر دیا کرتی تھی اور کبھی کبھار اچھا گاہک ملنے پر جسمانی خرید و فروخت بھی کر لیا کرتی تھی، مگر اونچے داموں پر اور یہ سلسلہ طوائف کی جوانی ڈھلنے تک جاری رہا کرتا تھا۔۔

تیس، پینتیس کی عمر شروع ہوتے ہی طوائف کی رقص کی محفل بھی ختم ہونے لگتی تھی اور اس کے جسمانی گاہک بھی پیسے کم کرتے کرتے غائب ہونے لگتے تھے۔ اس وقت اس طوائف کے دو مستقبل ہوا کرتے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اب عام عوام کے لیے دستیاب ہو جائے اور ہر رات بغیر حساب کتاب جو گاہک مل جائے شکر سے قبول کر لے۔۔ یا پھر اپنے ہی کسی سازندے (موسیقی کے ساز بجانے والے) کے ساتھ "شادی" کرکے گھر کی ہو جائے۔

کوئی کوئی طوائف جو اس اڈے کی مالکہ کی سگی اولاد، یا خاص شاگرہ ہوا کرتی، وہ ٹریننگ لے کر اس نائیکہ یا مالکہ کی جگہ سنبھال لیتی اور اڈے کی مینیجر کے فرائض اور نئی طوائفوں کی ٹریننگ کی ذمہ داری لے لیا کرتی تھی۔

۔۔ یہ تو تھا پچھلی صدی کا حال۔۔

پھر ماڈرن زمانہ آ گیا۔۔ طوائف کو مہذب دنیا میں مختلف نام دیدیے گئے۔

ناچنے والی الگ تھی۔

جسم بیچنے والی الگ۔

پھر یہ بھی کہا گیا کہ ادائیں بیچنا کچھ اتنی بری بات نہیں ہے۔ یہ تو فن ہے۔ آرٹ ہے۔ رقص آرٹ ہے اس لیے رقاصہ بھی آرٹسٹ ہے۔ کوئی برا پیشہ نہیں ہے یہ۔

باقی کے تمام معاملات کے نام بھی بدل دیے گئے۔ اب رقاصہ نواب کی رکھیل نہیں ہوا کرتی تھی، اب وہ کسی فلمساز سے شادی کر لیتی تھی۔۔

یہ بھی چند دہائیاں پہلے تک ہوتا تھا۔۔ اب تو معاملات ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں۔

ڈیجیٹل انقلاب نے "طوائف کے پیشے" کو ماڈرنائز کر دیا ہے۔

پہلے تماشبین طوائف کے اڈے پر بیٹھ کر نئی رقاصہ کے جسم سے اور اسکی اداؤں سے لطف لیا کرتے تھے۔ اب وہ آن لائن انٹرنیٹ کے ذریعے موبائل اسکرینوں پر اس سے کہیں زیادہ لطف اٹھا سکتے ہیں۔

پرانے زمانے کے تماشبین صرف ایک طوائف کے کوٹھے پر جا کر گانا سننے کے کتنے پیسے خرچ کیا کرتے تھے۔ گرمی سردی کے موسم میں سفر کرکے وہاں پہنچتے اور اپنی جیب کے مطابق باقی تماشبینوں کی بھیڑ میں، مٹی کے تیل کے لیمپ، یا بجلی کے بلبوں کی ہلکی روشنی میں دس بیس فیٹ کے فاصلے سے ناچتی رقاصہ کو دیکھا کرتے تھے۔۔ اس پر بھی رقاصہ کا بھاری لباس اس کے جسم کے خاص حصے چھپا لیتا تھا۔۔

جبکہ نئے زمانے میں بغیر ایک پیسہ خرچ کیے ایک تماشبین کیا کچھ دیکھ سکتا ہے اس کے لیے آج کا سوشل میڈیا دیکھ لیجیے۔ (کم از کم تماشبین کا کوئی پیسہ نہیں لگتا، کیونکہ ڈیجیٹل طوائفوں کو پیسے ایڈورٹائزنگ کمپنیاں دیتی ہیں)۔

آج کا ماڈرن تماشبین، ایک نہیں بلکہ سینکڑوں، ہزاروں ناچتی عورتوں کو اپنی مکمل تنہائی میں اس طرح دیکھ سکتا ہے کہ انکی ایک ایک حرکت کو وہ روک کر، زوم کرکے سلو موشن میں سراہ سکتا ہے اور دوسری جانب آج کی ماڈرن ناچنے والی تو بھاری لباس کے بوجھ سے بھی آزاد ہے، بلکہ ان ایڈورٹائزنگ کمپنیوں نے یہ بندوبست کر دیا ہے کہ اب وہ اسکن ٹائٹ انڈروئیر پہن کر ناچتی ہیں اور انکی کوشش ہوتی ہے کہ تماشبین انکے جسم کی ایک ایک حرکت، ایک ایک زاویہ اور ایک ایک عضویاتی تفصیل دیکھ کر داد دے سکیں۔

اب مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج کی ماڈرن ڈیجیٹل "طوائف الملوکی" میں نواب کون ہیں؟ وہ کیسے ان ناچتی طوائفوں کو اپنی رکھیل بنانے کے لیے پیسہ پھینکتے ہیں۔ یہ کیسے ان میں سے زیادہ پیسے والے کو منتخب کرتی ہیں اور پھر چند سال بعد قیمت گرنے کے بعد اپنے "سازندوں" (یا بیسٹ فرینڈ) کے ساتھ "سیٹل ڈاؤن" ہوتی ہیں۔۔ زرا سی کوشش سے آپ خود جان سکتے ہیں۔

البتہ اگلی کسی تحریر میں میں ان دلالوں پر بات کرنا چاہوں گا، جن کے پاس اپنے اڈے کی طوائفوں کے البم ہوا کرتے تھے اور وہ انکو بیچ کر کمیشن کمایا کرتے تھے۔

Check Also

Deobandi Ulema Ki Siasat

By Muhammad Aamir Hussaini