Muzakrat
مزاکرات
اگر ایک چھوٹی سی ٹیم میں سے ایک بھی کھلاڑی، یا کسی بھی پارٹی کا ممبر سنجیدہ نہ ہو تو اس ٹیم یا، پارٹی کی تباہی یا تنزلی میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
شروع دن سے سنجیدہ لوگوں کو ایک خاص عزت و مقام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یقیناََ معاشرے کا حسن سنجیدہ لوگوں کی مرحون منت ہے۔ کوئی بھی قبیلہ، کوئی بھی پارٹی، کوئی بھی خاندان، یا کسی بھی طبقے کو ہمیشہ سنجیدہ لوگ ہی سنبھالتے ہیں۔
کوئی بھی بزنس ہو کاروبار ہو حتی کہ گاڑی چلانے تک، غیر سنجیدہ لوگوں کو خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مملکت خداداد جب سے معرض وجود میں آیا ہے۔ تب سے لیکر آج تک وقتا فوقتا جمہوری پارٹیوں نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے۔ جمہوری پارٹیوں میں اور ڈیکٹیٹر شپ کی تو کبھی نہ بن پائی۔ مگر جمہوری پارٹیوں نے آپس میں ہمیشہ مزاکرات کی ایک بہترین تاریخ لکھ رکھی ہے۔ ہر معاملے کو مزاکرات کی میز تک لایا ضرور جاتا رہا ہے۔ کامیاب یا ناکام یہ اپنی جگہ مگر یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔
اس ملک میں بہت بڑی نفرت انگیز اور اشتعال انگیزی کے بعد بھی، میثاق جمہوریت، میثاق سویلین، یا سول سپرمیسی دیکھا اور سنا ہے۔ کوئی بھی طاقت ابدی نہیں ہوتی کوئی بھی کمزوری تاحیات نہیں رہتی۔ ہمیشہ سے بلندیوں کو پستیوں میں بدلتے بھی دیکھا گیا ہے اور کمزور تر کو بلندیوں کی پرواز کرتےبھی دیکھا گیا ہے۔
یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمیشہ اقتدار نہیں رہتا اور ہمیشہ اپوزیشن بھی نہیں رہتی۔ حالیہ ملکی ریاستی حالات کے پیش نظر موجودہ سیاسی تناو میں ریاست کیلئے استحکام جمہوریت اور استحکام معیشت کے خواب پورا کرنے کیلئے میثاق معیشت کی اشد ضرورت ہے۔
موجودہ پاکستانی حالات کو اگر صرف دوسال قبل سے موازانہ کیا جائے تو یقیناََ بہت سے معاشی مثبت اشاریے ملتے ہیں۔ مگر مسلسل ڈیڈ لاک کی وجہ سے قوم میں بہت سی مایوسیاں پائی جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مسائل بھی سیاسی انا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
مثبت سٹاک ایکسچینج کا ریکارڈ بھی قوم کیلئے کارگر ثابت نہیں ہورہا ہے۔ کیونکہ دو یا تین ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان انا بازی اور چوہدراہٹ کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ جس کا نقصان ہمیشہ کی طرح غریب ہی بھگت رہا ہے۔
انا اس حد تک جاچکی ہے کہ کچھ بھی کرکے سب وسائل استعمال کرکے چھوٹی چھوٹی کمزوریوں کو چھپایا یا دفاع کیا جارہا ہے۔ طوالت حکمرانی کے عوض بڑی بڑی سیاسی ڈیلیں بھی ریکارڈ شد ہیں، کسی آئینی بحران کو بالائے طاق رکھ کر بھی مقدس ایوانوں میں توں توں اور میں میں پر مبنی گھمسان کی جنگ جاری ہے۔
حالات اس نہج تک ہیں کہ لفظ مزاکرات کو کمزوری اور بزدلی سمجھا جارہا ہے۔ جوکہ ریاست یا جمہوریت کیلئے بہت خطرناک چیز ہے۔ آپ ضد انا کی بنیاد پر کبھی بھی حاصل مقام کی طرف نہیں جاسکتے۔۔
آج کے قومی اسمبلی کے سیشن میں تحریک انصاف کے اہم رہنماء شیر افضل مروت صاحب کی طرف سے ایک بہترین بات سننے کو ملی ہے کہ جب ہم خود اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کو برداشت نہیں کریں گے تو فرشتوں نے تو ہمارے مزاکرات کیلئے نہیں اترنا ہمیں خود کو ہی سیریس لینا ہوگا میرے خیال میں یہ ایک مثبت پہلو کی ابتداء کی گئی ہے اللہ کرے کہ شیر افضل مروت صاحب کے بیان کے پیچھے بانیان بھی سنجیدہ ہوجائیں اور حکمرانی ایوانوں سے دو چار سنجیدہ لوگ اس کشمکش کو مزاکرات کی ٹیبل تک لے جانے میں کامیاب ہوجائیں۔
میری رائے کے مطابق دونوں فریقین کو میثاق معیشت پر مبنی ٹیبل ٹاک کا آغاز کرنا چاہئے اور اس طرح باقی مانندہ معاملات بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے چاہیں۔ جس گھر میں لڑائی جگھڑا معمول بن جائے۔ وہاں مہمان آنے سے ہمیشہ کتراتا ہے، جب تک تمام فریقین مزاکرات کی میز پر نہیں بِیٹھیں گے تب تک غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے کترائے گا۔
ملک میں غیر یقینی صورتحال کی بدولت غیر ملکی کمپنیوں کو کسی بھی نقصان کے اندیشے کی وجہ سے بہت سی سرمایہ کاری کی دعوتیں کاغذ تک محدود رہ جاتی ہیں۔
خدارا سب سیاسی جماعتیں ملک کیلئے اور قوم کیلئے سول سپر میسی کیلئے یک جان ہوجائیں اور غریب آدمی کو حالیہ بلند ترین سٹاک ایکسچینج کے فوائد سے مستفید ہونے دیں مزکرات ہر مسئلے کا حل ہوتے ہیں شاید جس بانی کو 500 دن سے نہیں چھڑا پائے شاید اسکی رہائی کا راستہ ٹیبل ٹاک سے آسان ہوجائے۔