Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Pakistani Siasat o Muashrat Par Social Media War Ke Manfi Asrat

Pakistani Siasat o Muashrat Par Social Media War Ke Manfi Asrat

پاکستانی سیاست و معاشرت پر سوشل میڈیا وار کے منفی اثرات

سوشل میڈیا کاحال کسی بندر کے ہاتھ آئی ماچس کی طرح ہے جو پورا جنگل جلانے کی ٹھان بیٹھاہے۔ اکیسویں صدی کے مجموعی منظر نامے پر اس وقت جس طاقت کا راج ہے وہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا میں اتنی طاقت موجود ہے کہ پل بھرمیں جھوٹی، من گھرٹ اور بے بنیاد خبر کو جنگل میں لگنے والی آگ سے پیشتر جابجا پھیلا دیتا ہے۔ دُنیا بھر کے حکمران سوشل میڈیا کے بڑھتے اس ناسور کی روز افزوں طاقت سے پریشان ہیں۔

انٹرنیٹ کی ایجاد سے قبل پرنٹ میڈیا کا دور تھا (جو ہنوز ہے) جس پر گرفت اور مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اخبارات کے مالکان سمیت صحافیوں اور نامہ نگاروں کو خریدا جاتا تھا۔ اخبارات و رسائل میں اپنی مرضی کی خبر لگوانے اور ہٹانے کاکام منظم مافیہ انڈسٹری کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر میں حکومتوں کے تختے اس ہتھیار کے موزوں استعمال سے اُلٹائے جاتے رہے ہیں۔ انٹر نیٹ کی آمد سے پرنٹ میڈیا کی وقعت اور اہمیت بہت حد تک کم ہوگئی ہے۔

جو کام مینول طریقے سے کیا جاتا تھا اب ڈیجیٹل طریقے یعنی الیکٹرانک میڈیا سے مینج ہو رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے دُنیا کے جملہ ممالک اپنی سرحدوں میں مقید نہیں رہے۔ گلوبلائزیشن یعنی عالمگیریت کے وسیع تناظر میں اب کسی ملک کی معمولی خبر پوری دُنیا کے لیے بریکنگ نیوز کی حیثیت رکھتی ہے جو کم و بیش تین پانچ دس منٹ میں آناً فاناً بغیر کسی رکاوٹ کے ہر جگہ پہنچ جاتی ہے اور اس پر فوراً ردِعمل بھی سامنے آجاتا ہے۔

پولیٹیکل سائنس میں اسے"سوشل میڈیا وار" کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے جبکہ آئی ٹی میں اسے"آرٹی فیشل انٹیلی جینس" کہا جاتا ہے(جسے متنوع مقاص کے لیے استعمال کیا جارہا ہے)۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں کا جملہ سیاسی و معاشی اور تہذیبی و معاشرتی نظام سوشل میڈیا نے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کی خبروں میں صداقت کا تعین سوشل میڈیا کرتا ہے جبکہ سوشل میڈیا کا پچاسی فیصد contentمین اسٹریم میڈیا پربراہ راست دکھا نا مجبوری بن چکا ہے۔

کسی مشہور شخصیت کی ننگی وڈیو سب سے پہلے سوشل میڈیا پر لیک ہوتی ہے (یا کی جاتی ہے) بعد ازاں مین اسٹریم میڈیا پر نشر ہوتی ہے پھر اخبارات و رسائل میں اس پر فیچر لکھے جاتے ہیں نیز کالم نگار حق و مخالفت میں گرما گر م کالمز لکھ کر اس واقعے کے دسیوں انداز میں تجزیے کرتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں دُنیا کا جملہ سیاسی نظام اس بات کو متفقہ طور پر تسلیم کر چکا کہ سوشل میڈیا وار کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی، بیانیے کی پیوند کاری اور نظریات کے فروغ کا کام نہایت آسان ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مین اسٹریم میڈیا کو دُنیا بھر میں ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے مینج کیا جاتا ہے۔ بعض ممالک میں مین اسٹریم میڈیا انڈسٹری کو حکومتی سرپرست حاصل ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ حکومتی ایوان میں بیٹھے اشخاص دراصل ان میڈیا ہاؤسز کے مالک و ساجھے دار ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا وار کے متنوع استعمالات کے موضوع پر پولیٹیکل سائنس دانوں اور مورخین نے سیکڑوں کتابیں اور تحقیقی مقالات شائع کیے ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ تھرڈ پاور کو سامنے لانے کے لیے سوشل میڈیا کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ حال ہی میں دُنیا کے سپر پاور ملک امریکہ نے عام انتخابات میں سوشل میڈیا کو پوری طرح مینج کیا ہوا تھا۔ اربوں ڈالرز کی انوسٹمنٹ اس مد میں کی گئی ہے۔ پاکستان میں 2018,2013 اور 2022 کے عام انتخابات میں جزوی طور پرسوشل میڈیا کو مینج کیا گیا تھا جس کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ 2022 کے عام انتخابات کے انعقاد سے لے کر اس کے حتمی نتائج تک جس طرح سوشل میڈیا کو مینج کیا گیا، اس کی مثال دُنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی۔

پاکستان کے علاوہ دُنیا بھر میں عام انتخابات میں کامیابی کے حصول کے لیے سیاسی جماعتیں مین اسٹریم میڈیا کومینج کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ اتنا بڑا کاروبار ہے کہ اس میں اربوں روپے کی انوسٹمنٹ کی جاتی ہے اور دس بیس گنا منافع کمایا جاتا ہے۔ اس کی مثال گزشتہ برس سے دانستہ طور پر مردود کی گئی پاکستان کی تیسری بڑی پارٹی کی مقبولیت کا راز سوشل میڈیا پاور کا موقع محل کے مطابق استعمال ہی ہے۔

مذکورہ پارٹی کے علاوہ پاکستان کی دوسری بڑی جماعتیں بھی سوشل میڈیا پاور کو استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں لیکن ان جماعتوں میں وہ پوٹینشل نہیں ہے جو مردود پارٹی کو ہنوز میسر ہے۔ مردود پارٹی کی حکومت کو گرانے کے لیے جو بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا وہ بھی پوری طرح مینجڈ اور فنڈڈ تھا جس کے ہوش رُبا شواہد حواس مختل کر دینے کے لیے کافی ہیں۔

پاکستانی سیاست میں اب بیانیے اور نظریے کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اب جو جتنا پروپیگنڈہ کرتا دکھائی دے گا وہ اتنا ہی مقبولِ عام ہوگا۔ کسی مخصوص بیانیے کو فروغ دینے کے لیے مخصوص الفاظ کو سوشل میڈیا پراس قدر وائرل کیا جاتا ہے کہ ہر جگہ اسی بیانیے سے متعلقہ معلومات کی بھر پورترجمانی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ایک ہی بیانیہ لوگوں کے ذہنوں میں غیر محسوس طریقے سے ٹھونسا جاتا ہے۔ اس پراسیس کی دسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ یووال نوح ہراہری کی کتاب پڑھ لیجیے۔

09 مئی کے واقعہ کے پیچھے بھی سوشل میڈیا کا ہاتھ ہے۔ مردود پارٹی کی مقبولیت کو زمین پر گرانے والا یہی ایک واقعہ ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پچھتر برسوں میں پاک فوج کے خلاف ہر قسم کے محاذ کو اُچھالنے اور منفی پروپیگنڈا کو پروان چڑھانے کی مذمو م کوشش کے باوجود اتنے بڑھے پیمانے پر عوامی منافرت سے لیس لشکر کو مقررہ ہدف پر چڑھائی کے لیے کسی اور سیاست دان نے منظم و مستعد نہیں کیا جتنا مردود پارٹی کے بانی نے مختصر وقت میں کر لیا تھا۔ یہ ایک مخصوص پروپیگنڈا تھا جو امریکہ کی مداخلت کا بیانیہ تشکیل دے کر مردود پارٹی کے سربراہ نے سڑکوں پر آکر جلسوں میں عوام الناس کے ذہنوں میں زہر کی طرح اُنڈیلا۔ اس زہریلے بیانیے کا نتیجہ 09 مئی صورت سامنے آیا جس سے ملک ہاتھوں سے جاتے جاتے بچا۔

پاکستان کے جملہ انتظامی ادارے اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ملک کی سالمیت اور تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ سیاست دان حکومتی اقتدار کے حصول کے لیے محض اپنے بیانیے کی مقبولیت کے پیشِ نظر ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگانے کے لیے کیوں تیار ہو رہتے ہیں؟ 2013 کے الیکشن سے پہلے مردود پارٹی کا نام و نشان نہ تھا۔ 2013 سے2018 کے درمیان اس پارٹی کو منظم و مقبول ہونے کی اجازت کس نے دی گئی اور 2018 کے الیکشن میں ہر طرح کی سہولت و ذرائع فراہم کرکے اس پارٹی کی یقینی کامیابی کی راہ کس نے ہموار کی۔ 2018 کے الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کا شور مچا یا گیا لیکن کسی نے ان کی نہیں سُنی اور پھر شاہانِ وقت نے کسی بات پر روٹھ کر پوری پارٹی کا پوسٹ مارٹم کر دیا۔

پاکستان کی ستر سالہ سیاسی تاریخ میں سیاست دانوں کی طرف سے ہمیشہ ایک ہی گلہ اور الزام سامنے آیا ہے کہ کوئی خفیہ طاقت ہے جو ہمیں مجبور کرتی ہے، ہمارا راستہ کاٹتی ہے، ہمیں سخت فیصلے کرنے پرمجبور کرتی ہے۔ ہم بےبس، لاچار اور کمزور ہیں، ہمارے ہاتھ باندھ دئیے گئے ہیں، ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سیاست دانوں کا یہ رونا دُھونا اور گھسٹا پٹا بیانیہ قیامِ پاکستان سے اب تک کامیابی سے جاری ہے۔ اس واویلے کے باوجود ہر پارٹی خود کو تخت نشینی کے لیے حق بجانب سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ انھیں نہ صرف حکومت دی جائے بلکہ دوسری پارٹیوں کو مردود قرار دے کر حکومت سازی کے لیے نیوٹرل گراؤنڈ بھی دی جائے۔

خفیہ طاقتوں سے مراد کیا ہے؟ خفیہ طاقتوں سے مراد ملکِ پاکستان کے پانچ بڑے وہ ادارے ہیں جن کے سربراہان اس بات کا متفقہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کو کب، کہاں، کس وقت، کتنی دیر کےلیے حکومت کرنے کا اختیار دینا ہے، کس پارٹی کو اپوزیشن میں رکھنا ہے، کس پارٹی کو مردود قرار دینا ہے اور کس جھتے کو بیک ڈور پالیسی کے تحت کسی بھی حکومت کا تخت دھڑن کرنے کے لیے مستعد رکھنا ہے۔

یہ پانچ ادارے ویٹو کی طرح اس حق کا دائمی استعمال اپنے پاس محفوظ و مقید رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان پانچ اداروں کو ویٹو کرنے کا یہ اختیار کس قانون کے تحت تفویض کیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب پاکستان کی دو تہائی اکثریت ایوانوں میں بیٹھے صاحبانِ عالی وقار سے روز پوچھتی ہے یا یوں سمجھیے کہ عوام الناس کو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم دے کر ان کے منہ سے یہ بات روزانہ اُگلوائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو مینج کرنے والی جملہ طاقتوں کے پاس لامتناہی اختیارات کی تقسیم کا حق کس نے دیا ہے؟

سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی اور منتقلی تو سمجھ میں آتی ہے کہ اب دُنیا کسی ایک لاٹھی سے نہیں ہانکی جاسکتی پاکستان کےموجودہ حالات کے پیشِ نظر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی خفیہ طاقتوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہو چکا ہے کہ پاکستان کی معیشت روبہ زوال ہے۔ یہاں کام کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ رشوت و لوٹ مار کا بازار گرم ہے، جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ لے اُڑتا ہے۔ عدل و انصاف، دیانت داری، ایمانداری، خلوص، وفا، توکل، بھروسہ، تعمیر و تہذیب سمیت جملہ تعمیری اختصاص اپنی موت آپ مر چکی ہیں۔

اس ناہنجار ہجوم کو کنٹرول کرنے کا واحد راستہ سوشل میڈیا ہے جسے پوری شد و مد کے ساتھ ہرموقع پر استعمال کیا جارہا ہے۔ مزےکی بات یہ کہ حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر سوشل میڈیاکا منفی استعمال اس قدر عام ہو چکا ہے کہ کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ بہ حیثیت قوم ہم کس دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔

عوامی سطح پر سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی بات کی جائے تو یہ سمجھ لیجیے کہ جس کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ ایکٹر ہے اور وہ جو دکھانا چاہتا ہے وہ بغیر شرمائے لوگوں کو اپنا سب کچھ دکھا رہا ہے۔ فیس بک، ٹِک ٹاک، انسٹا گرام وغیرہ پر کیا چیز ہے جو سب سے زیادہ دیکھی جارہی ہے اور دکھائی جارہی ہے۔ پاکستانی قوم اپنی اخلاقی اقدار سے پوری طرح بے گانہ ہو چکی ہے۔ کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں رات گئے تک سوشل میڈیا پر کیا سرچ کر رہے ہیں۔

پاکستان گزشتہ پانچ برس سے پورن سرچنگ میں پہلے تین چارنمبرز میں رہا ہے۔ مقبولیت او رٹرینڈنگ کا یہ معیار بتا رہا ہے کہ پوری قوم کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے۔ نوبت یہاں تک جاپہنچی ہے کہ شادی شدہ جوڑے اپنی نجی حرکات و سکنات لوگوں کو دکھانے میں عار محسوس نہیں کررہے ہیں اور دیکھنے والے "کیا بات، کیا بات" کہتے نہیں تھکتے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کی انفرادیت، تشخص، پہچان، اقدار اور روایا ت کو کس طرح کچلا جارہا ہے اور جس انداز میں عوام الناس کی ذہن سازی کی جارہی ہے یہ غور طلب بات ہے۔ نام نہاد سوشل میڈیا کی انٹر نیشنل ایجنسیاں پاکستان میں روزانہ کی بنیاد لاکھوں ڈالرز کا منافع کمانے کے ساتھ ذہنی و جسمانی طور پر اس قوم کو مفلوج بھی کر رہی ہیں۔

ستم یہ کہ آٹھ دس سال کے بچے کو " ڈیٹ، سیکس، پورن، فکنگ، ماسٹر بیشن" ایسے الفاظ کا پتہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کے کیا معنی ہیں۔ پاکستانی یوتھ کا جنسی ٹمپریچر چیک کرنے کے لیے یہ کافی ہےکہ دورانِ استعمال ان کے ہاتھ سے اچانک موبائل لے کر سرچنگ ہسٹری دیکھ لیں گے۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہمارا ہونہار یہ کیا کچھ دیکھتا ہے اور سرچ کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر پورن انڈسٹری مافیہ کا بھی راج ہے۔ یہ مافیہ نہایت چالاکی سے نوجوان لڑے لڑکیوں کو نہ صرف ذہنی امراض میں مبتلا کر رہا ہے بلکہ جسمانی عوارض کا شکار بھی کر رہا ہے۔ آج ہمارا بچہ شدید تکان اور دباؤ کا شکار ہے۔ اسے وہ بیماریاں لاحق ہیں جو کچھ عرصہ قبل بوڑھے لوگوں کو بڑھاپے میں لاحق ہوا کرتی تھیں۔

سارا قصور سوشل میڈیا کا نہیں ہے اس کارخیر میں والدین نے بھی برابر کا حصہ ڈالا ہے۔ والدین نے چند برسوں سے برگر بچوں کی ایسی کھیپ تیار کی ہے جو ایک نمبر کے نکمے، کاہل اور کام چو رہونے کے ساتھ حد درجہ بد تمیز واقع ہوئے ہیں۔ والدین نے جانے انجانے میں ان بچوں کو خراب کرنے میں اہم کردار ضرور ادا کیا ہے جسے ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ ہمارے بچے ہیں۔ یہ ملکِ پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔ خدا کے لیے انھیں اچھے بُرے کی تمیز سکھائیے اور احترامِ آدمیت و خاندانی روایات سے آگاہ کیجیے۔ آپ کو شائد علم نہیں کہ سوشل میڈیا جو عالمی طاقتوں کا ایک طاغوتی نظام ہے وہ ہمارے مستقبل کے ساتھ بڑی چالاکی سے کھیل رہا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے حتیٰ الاامکان نوجوان نسل کو بچایا جائے۔ حکومتی سطح پر قابلِ اعتراض مواد کو ہٹانے اور فلٹر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ حکومت کو اس بات کاڈر ہے کہ نوجوان نسل کسی کے بہکاوے میں آکر ہمارا تختہ دھڑن نہ کر دے، اس خوف کے پیشِ نظر حکومت انٹر نیٹ کے ساتھ آج کل تجربات کر رہی ہے کہ کسی طرح انٹر نیٹ کی تیز رفتار ٹریفک پر چیک اینڈ بیلنس کا کنٹرول حاصل کرکے اس کی نگرانی کی جاسکے۔

اب بات کنٹرول کرنے اور فائر والز لگانے سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ایلون مسک کا ٹیسلا موبائل لانچ ہونے کی دیر ہے۔ ویسے بھی پاکستانی قوم کا بہ حیثیتِ مجموعی بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ ملک کو مزید تباہی سے بچانے اور منفی پروپیگنڈا کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکومت کو ہوش کےناخن لینے ہوں گے۔ اس سلسلے میں تعلیمی اداروں میں سیکس ایجوکیشن کو لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھانا ہوگا نیز مدارس اور مساجد میں مثبت اقدار ہائے زیست سے متصل تربیت کے پروگراز کا انعقاد کرنا ہوگا۔

والدین، اساتذہ اور مساجد کے امام پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا وار کے مذموم مقاصد سے نوجوان نسل کو نہ صرف آگاہ کریں بلکہ خود کو پہلے ٹھیک کریں۔ اس لیے کہ یہ شخصیات خود بھی ذہنی طور پر باغیانیہ افکار کی حامل ہو چکی ہیں۔ سیاست دانوں اور خفیہ طاقتوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ بھی اپنے تیور ذرا تبدیل کیجیے اور اس بات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ ہمارے پاس دُنیاکو بیچنے کے لیے کچھ نہیں رہا۔ کوڑا ہی کوڑا ہے جو ہر طرف بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے جسے کوئی بگولہ بھی اپنے ساتھ اُڑانے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔

حکومت کیجیے اور مزہ لیجیے لیکن یہ دیکھ لیجیے کہ جس رعایا پر آپ نے حکومت کرنی ہے وہ اس قابل بھی ہے کہ مزید آپ کی تابع داری کر سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تختِ شاہی پر تکیہ کیے غفلت کے خمار میں ملک کو ایک بڑے سیلاب کی نذر کر بیٹھیں جنابِ عالی! چڑیا کھیت سے دانہ چُگ کر اُڑنے کو تیار ہے اور آپ ہیں کہ ابھی تک جال بُننے کا عمل بھی شروع نہیں کر پائے۔

خلیل صاحب! ہوش میں آئیے۔ ملک ایک بڑے بدلاؤ کے انتظار میں صبر کے پیمانے کو لبریز کیے بیٹھا ہے۔ آنکھیں کھولیے اور اپنی ذمہ داری کا فرض ادا کیجیے۔ کہیں وہ مثَل آپ پر صادق نہ آجائے کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑگیاں چُگ گئیں کھیت۔

Check Also

Safar Lamba Hai, Faqat Richard Grenell Par Khush Na Hon

By Nusrat Javed