Deobandi Ulema Ki Siasat
دیوبندی علماء کی سیاست
مفتی محمود صدر جمعیت علمائے اسلام سے منسوب ہے کہ بنگلہ دیش بننے پر انھوں نے قومی اسمبلی کے فورم پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے بارے میں ان کے اکابرین نے درست کہا تھا کہ جلد بدیر ملک دولخت ہوجائے گا۔ خدا کا شکر ہے ہمارے اکابر پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔
اگرچہ مفتی محمود نے 1971ء کے انتخابات کے بعد صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر اتحادی حکومتیں قائم کی تھیں اور قومی اسمبلی میں وہ نیپ کے ساتھ ہی حزب اختلاف میں شامل تھے اور جمعیت علمائے ہند کی قیام پاکستان کی مخالفت کی رائے کو درست قرار دیتے تھے اور جمعیت علمائے ہند کے سربراہ اور مہتم دارالعلوم دیوبند انڈیا مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے ہم خیال دیوبندی علماء کے نظریہ قومیت کو درست قرار دیتے تھے کہ قوم وطن سے بنتی ہے ناکہ مذھب سے لیکن پاکستان بننے کے وقت سے لیکر اپنی وفات تک وہ اور ان کی جماعت پاکستان میں نفاذ اسلام اور شریعت کے نام پر چلنے والی ہر تحریک میں شامل رہے۔
وہ جمعیت علمائے اسلام نام کی جس جماعت کے پاکستان میں سربراہ بنے اس کی تشکیل سن 1945ء میں علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں جمعیت علمائے ہند سے الگ ہونے والے دیوبندی علماء نے کی تھی اور اس کے پہلے سربراہ علامہ شبیر احمد عثمانی تھے اور ان کا ساتھ دینے والوں میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد علی لاہور، مولانا ظفر احمد عثمانی اور دیگر تھے اور اس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی حمایت کی۔
مولانا شبیر احمد عثمانی کی وفات کے بعد مولانا ظفر احمد عثمانی اس جماعت کے سربراہ بنے اور 1956ء میں ان کی وفات کے بعد دارالعلوم قاسم العلوم ملتان میں جمعیت علمائے اسلام کی مجلس شوری کے اجلاس میں مولانا احمد علی لاہوری جے یو آئی پی کے مرکزی امیر، مفتی محمود نائب امیر اور مولانا غلام غوث ہزاروی ناظم اعلی منتخب ہوئے۔ پہلے تین امراء جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے دور میں جمعیت علمائے اسلام کی قربت حکمران جماعت مسلم لیگ کے ساتھ رہی اور اس نے حکمران جماعت مسلم لیگ کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی قیادت میں پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کے نام پر جاگیرداری، سرمایہ داری کو مضبوط کرنے، ایک جماعت کی آمریت قائم کرنے اور مسلم لیگ کے اندر اور باہر اٹھنے والی جمہوری آوازوں کو دبانے اور پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں کا بھرپور ساتھ دیا۔
قرارداد مقاصد کی تشکیل اور اس کی منظوری میں میں بھرپور ساتھ دیا۔ ریاست اور مذھب کی علیحدگی کے نعرے اور سیکولر ریاست کے قیام کی شدید مخالفت کی۔ ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگوں کے مذھب کی شناخت اور ان کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرے۔
1950ء میں اس کی قیادت نے دیوبندی علماء کے دستخطوں سے جاری ہونے والے اعلامیے پر دستخط کیے اور حمایت کی جس میں شیعہ فرقے کے عاشورا کے جلوسوں اور مجالس کے پبلک مقامات پر انعقاد پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس جماعت کے مرکزی اور صوبائی، مقامی رہنماء اور کارکن 1949ء سے 1962ء تک راولپنڈی لاہور، کراچی، خیر پور، ناروال، کوہاٹ، ہنگو، کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، حیدرآباد، جھنگ سمیت کئی شہروں میں محرم الحرام عاشورہ کے شیعہ جلوسوں کے دوران شیعہ-دیوبندی فساد اور لڑائی کے پرتشدد واقعات میں ملوث رہے اور شیعہ فرقے کی عوامی مقامات پر مذھبی تقریبات کے انعقاد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے رہے۔
جمعیت علمائے ہند سے وابستہ علماء دیوبند کی بہت بڑی تعداد جنھیں حکمران جماعت اور سرکاری پریس کانگریسی ملاں قرار دیتے تھے نے پاکستان نواز جماعت جمعیت علمائے اسلام پاکستان میں شرکت اختیار کرلی تھی اور 1956ء میں ملتان میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کہا جاتا ہے کہ ان کانگریس نواز سابقین جمعیت علمائے ہند کے دیوبندی علماء کی اکثریت پر مجلس شوری بنی تھی جیسا کہ مرکزی امیر، نائب امیر اور ناظم اعلی کے عہدوں پر سابقین جمعیت علمائے ہند سے وابستہ دیوبندی علماء کے انتخاب سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ نئے عہدے دار پاکستان بننے تک جمعیت علمائے ہند کے عہدے دار تھے اور مذھب کے نام پر پاکستان کے قیام کے شدید مخالف تھے۔ مولانا احمد علی لاہوری کی وفات کے بعد 1962ء میں مفتی محمود جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی امیر منتخب ہوئے۔ وہ اعلانیہ جمعیت علمائے ہند کی پاکستان مخالف پالیسی کو ٹھیک قرار دیتے تھے اور پاکستان بننے سے پہلے بھی ان کے صوبہ شمال مغربی سرحد میں خدائی خدمتگار تنظیم اور اس کے روح رواں باچا خان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔
جمعیت علمائے اسلام کی بلوچستان اور سندھ شاخ کے جو صوبائی قائدین تھے اور مرکزی شوری میں شامل تھے ان کا سیاسی رجحان بھی پاکستان بننے سے پہلے کانگریس کی طرف تھا اور ان میں بلوچستان سے خاص طور پر سابق ریاست قلات سے تعلق رکھنے والے جو علماء تھے وہ ریاست قلات کی پاکستان سے علیحدگی کے حامی رہے تھے جبکہ یہی معاملہ سندھ سے تعلق رکھنے والے دیوبندی علماء کی اکثریت کا تھا اور یہ دونوں بلوچ اور سندھی قوم پرست تحریک کے حامی سیاست دانوں سے ہم آہنگی رکھتے تھے۔ لیکن یہ سب کے سب قومی سیاسی منظر نامے پر پاکستان کو ایک مذھبی پیشوائیت پر مبنی اسلامی ریاست بنانے کی شد و مد سے ابھارے جانے والے مطالبے کے حامی تھے۔ یعنی پاکستان میں ان کی نظریاتی سیاست اسلام اور شریعت کا نفاذ تھی جبکہ عملی سیاست میں یہ پشتون، سندھی اور بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھڑے تھے۔
مفتی محمود کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف تو کوئی تحریک منظم نہیں کی لیکن جب ایوب خان نے 1962ء کے آئین میں مسلم عائلی قوانین متعارف کرائے جن میں نکاح کی رجسٹریشن، عورت کو حق طلاق، فیملی پلاننگ جیسے کئی ایسے معاملات شامل تھے جس کی پاکستان کے ہر فرقے کے ملاں مخالفت کر رہے تھے کے خلاف چلنے والی تحریک میں ضرور شرکت کی۔
مفتی محمود کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام وہ واحد مذھبی سیاسی جماعت تھی جس نے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارت کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام کے خلاف قرار دیا اور عورت کی حکمرانی کے خلاف ملک گیر مذھبی تحریک کی قیادت کی اور یوں ایوب خان کی بالواسطہ حمایت کی۔ بعد ازاں جب ایوب خان کے خلاف 1967ء سے چلنے والی تحریک زور پکڑ گئی اور 1968ء کے آخر میں متحدہ جمہوری محاذ۔ یو ڈی ایف کے نام سے اپوزیشن اتحاد بنا تو مفتی محمود اس اتحاد کی بلائی گول میز کانفرنس میں شریک ہوگئے۔
1970ء میں جب ملک میں جنرل یحیی خان نے عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو مفتی محمود کی قیادت میں جے یو آئی پی وہ واحد مذھبی سیاسی جماعت تھی جس نے اپنے منشور میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے جس طرح کے اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی اسے اس نے "اسلامی سوشلزم" کا نام دیا۔ اس اصطلاح کی اس وقت کی دوسری مذھبی سیاسی جماعتوں بشمول جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی پاکستان، نظام اسلام پاکستان پارٹی نے شدید مخالفت کی بلکہ اس اصطلاح کو اس وقت کے ابھرتے ہوئے مقبول سیاسی رہنماء اصغر خان اور ان کی جماعت جسٹس پارٹی پاکستان اور بعد ازاں تحریک استقلال کے بانی نے گمراہ کن قرار دیا تھا۔
جماعت اسلامی کے حامی اخبارات نے مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی کو طنزا کامریڈ مفتی محمود، کامریڈ غلام غوث ہزاروی لکھنا شروع کردیا اور یہ بھی کہا کہ ان کی شریعت کا ماخذ مارکس اور لینن کی کتابیں ہیں ناکہ قرآن و حدیث۔ جمعیت علمائے اسلام نے بھی جواب میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر شدید حملے کیے اور انھیں امریکی سامراج اور صیہونیت کی ایجنٹ ٹھہرایا اور جب پاکستان دولخت ہوا تو مفتی محمود کا اپنے ہندوستانی سیکولر قوم پرست جماعت جمعیت علمائے ہند اور ان کے ہندوستانی نیشنلسٹ سیکولر علماء سے پیار دوبار امنڈ کر آیا اور انھوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر تقریر کرتے ہوئے اس بات پر خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کے اکابر پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے اور یہ کہتے وقت وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ پاکستان میں اس جماعت کے سربراہ تھے جس نے جمعیت علمائے ہند کے ہندوستانی سیکولر قوم پرست نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کی تھی اور جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی تھی۔
مفتی محمود کا جمعیت علمائے ہند کے سیکولر نیشنلسٹ موقف کا دفاع اپنی جگہ پر مگر پاکستان کے آئین کی تشکیل اور اس کی روشنی میں بچے کچھے پاکستان پر مبنی ریاست کے تشخص کا جب سوال سامنے آیا تو ایک بار پھر مفتی محمود کے اس معاملے میں رہنماء و رہبر جمعیت علمائے ہند کے سیکولر قوم پرست علماء کی بجائے مذھبی پیشوائیت کے علمبردار علماء علامہ شبیر احمد عثمانی اور ان کے ہمنوا دیوبندی علماء ٹھہرے اور انھوں نے اپنے اکابرین کو جس گناہ میں شامل نہ ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا تھا اسی گناہ کے لیے انھوں نے قومی اسمبلی میں موجود مذھب کو بناء قوم سمجھنے والی مذھبی سیاسی جماعتوں جن میں جے یو پی اور جماعت اسلامی سب سے ممتاز تھیں کے ساتھ ہاتھ ملایا اور بھٹو کے سامنے شرط رکھی کہ وہ 1973ء کے آئین کی تشکیل میں اس وقت ہی حصہ لیں گے اور آئین کے حق میں ووٹ دیں گے جب اس میں ان کی طرف سے پیش کردہ مبینہ اسلامی دفعات کو شامل کیا جائے گا۔
اس سے پہلے جے یو آئی نے نیپ کے ساتھ مل کر اگست 1972ء تک ملک میں مارشل لاء کو جاری رکھنے کی اجازت دینے کا معاہدہ بھی کیا تھا جس کو اٹھائے جانے کا مطالبہ قومی اسمبلی میں موجود جے یو پی، کونسل لیگ اور باہر موجود تحریک استقلال کر رہی تھیں۔ یوں جے یو آئی نے جے یو پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر 1973ء کے آئین کو اس طرح سے تشکیل کرایا کہ ریاست ایک ایسی ریاست بنی جس میں مذھب اور سیاست الگ نہیں تھے اور قومیت کی بنیاد مذھب تھا ناکہ وطن اور پھر 1974ء میں جے یو آئی مفتی محمود کی قیادت میں ایک بار پھر اینٹی احمدیہ ایجی ٹیشن میں فعال ہوئی اور اس نے ریاست کو اپنے طور پہ شہریوں کی مذھبی شناخت کی سند جاری کرنے کا اختیار رکھنے والی بنانے کا مطالبہ بھی شدومد سے کیا۔
مفتی محمود کی جماعت 1973ء کو شدھ اسلامی آئین قرار دیتے ہوئے دستخط کیے تھے وہی آئین اسے غیر اسلامی لگنے لگا اور اس نے ایک بار پھر ریاست کو مسلمان ریاست بنانے، آئین کو حقیقی اسلامی آئین بنانے اور ملک میں نفاذ شریعت کا نعرہ بلند کیا اور دیگر قدامت پرست مذھبی سیاسی جماعتوں کو ساتھ مذاکرات بھٹو حکومت ملک میں شرعی اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کردیا۔
بھٹو نے 74ء میں آئین کو مزید اسلامایا لیکن مفتی محمود یہیں نہیں رکے بلکہ انھوں نے اپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد / پی این اے میں شمولیت اختیار کی اور 1977ء میں انتخابات کے بعد وہ اس دائیں بازو کے اتحاد پی این اے کے صدر بنے اور دھاندلی کے خلاف تحریک کو "نظام مصطفٰی" کے نفاذ کی تحریک قرار دے ڈالا اور پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء تک اسے جاری رکھا۔ مفتی محمود 1985ء میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کے بعد جے یو آئی کے سربراہ ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمان بنے اور تاحال وہی اس کی قیادت کر رہے ہیں۔
پاکستان میں آج جمعیت نہ تو جاگیرداری اور سرمایہ داری کی مخالف سیاسی جماعت ہے نہ اس کا نعرہ اسلامی سوشلزم ہے اس کے منشور میں بھی یہ شامل بھی نہیں ہے۔ لیکن مفتی محمود کے جانشین اس ریاست کو ابھی اور مسلمان بنانے کا ایجنڈا صبح شام پیش کرتے رہتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اپنے والد محترم مفتی محمود کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے جمعیت علمائے ہند میں شامل ہندوستانی نیشنلسٹ سیکولر قوم پرست علماء کے موقف کی اپنے تئیں "تاریخی سچائی " کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے۔