خضر کلاسرا اور اسکے بچے
میرے چھوٹے بھائی خضر کے بچے مجھ سے خاصے قریب ہیں۔ سب بچوں کے ساتھ مجھے خود عجیب سا پیار رہتا ہے چاہے وہ میرے عزیز ہوں یا کسی کے بھی ہوں۔ بچے بھی مجھے وہی محبت دیتے ہیں۔ میں تو کبھی کبھار مارکیٹ میں ماں باپ کو بعض دفعہ روک دیتا ہوں اگر وہ بچوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ سختی کررہے ہوں یا ان پر شائوٹ کررہے ہوں۔
ماں باپ کی شکاتیں بھی بچے مجھے کرتے ہیں اور میں ان کی شکایتوں کو سیریس لے کر باقاعدہ ان کے ماں باپ کو کچھ ڈوز بھی دیتا ہوں۔
چھوٹے بھائی خضر کے تین بچے ہیں ماشاء اللہ۔ اس کے بیٹے نعیم کا نام ہمارے مرحوم نعیم بھائی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کی ایک بیٹی پارو ہے۔ بچپن سے ہی سمجھدارانہ باتیں کرتی ہے۔ اسے میری کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ اب میری نئی کتاب کشمیر کہانی آئی ہے تو اس نے ماں کو کہا چاچو کو کہو مجھے کتاب بھیجے۔ حالانکہ یہ کتاب بہت ہی سنجیدہ موضوع پر ہے اور اس کے ذہنی معیار سے بہت اوپر ہے۔ لیکن وہ پوری کوشش کرے گی کہ وہ اسے پڑھے۔
اس سے پہلے وہ گمنام گائوں کا آخری مزار اور شاہ جمال کا مجاور پڑھ چکی ہے جو زیادہ تر ہمارے گائوں کی کہانیاں ہیں۔ ان کتابوں سے اسے بہت کچھ اپنے گائوں اور اپنے رشتوں بارے پتہ چلا۔
اب یہ بچے جب ان کے نزدیک گمنام کرداروں کے بارے پڑھتے ہیں تو انہیں عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب سب لوگ کدھر ہیں۔ یہ بچے اس گائوں اور اس گھر بھی جاتے ہیں جہاں ان کہانیوں نے جنم لیا تھا جو اب ان کتابوں میں قید ہیں۔ وہ بچے اپنے دادا، دادی بارے پڑھتے ہیں۔ اس پرانے گھر بارے پڑھتے ہیں جہاں ان کا باپ پیدا ہوا اور ہم دیگر بہن بھائی پیدا ہوئے۔ وہ اس پرانے گھر میں گھومتے پھرتے ہیں جہاں ہم سب کا ماضی دفن ہے۔۔ ماضی کے مزار ہیں۔
یہ کتابیں اور ان میں زندہ کردار انہیں دیومالائی کردار لگتے ہیں جنہیں انہوں نے نہیں دیکھا لیکن ان سے انہیں ایک عجیب سی کشش اور رومانس محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ پڑھ کر وہ اپنے ذہن میں ان کرداروں کا اپنا ہی امیج بناتے ہیں اور پھر ماں باپ سے ان کے بارے پوچھتے ہیں۔
آج پارو اور نعیم کی ماں نے مجھے میسج بھیجا کہ "نئی کتاب کب ملے گی کیونکہ پارو کو اب عادت ہے اب آپ کی کتابیں پڑھنے کی۔ گمنام گاؤں کا آخری مزار پڑھ کر مجھ سے سوال کرتی ہے اور اپنی حویلی کا اور گھر کا، دادا دادی کا اور خاص تایا نعیم مرحوم کا وہ کیسے تھے۔
نعیم (جس کا نام مرحوم نعیم بھائی پر رکھا گیا تھا) کبھی ناراض ہو تو کہتا ہے آپ لوگوں نے ان کا علاج ہی نہیں کروایا ورنہ وہ زندہ ہوتے۔ آپ کی ان خوبصورت تحریروں کی وجہ سے ان دیکھے خون کے رشتے ان بچوں کو محسوس ہوتے ہیں"۔
مجھے یہ میسج پڑھ کر احمد کی بات یاد آئی جس کا نام میں نے اپنے دادا کے نام پر رکھا تھا کہ بابا آپ کتابیں لکھا کریں۔ یہ آپ کو زندہ رکھیں گی۔
شاید آنے والے زمانوں میں میرے ان بچوں کی کسی نسل میں سے کبھی کسی دن کوئی ایک بچہ اس طرح شاید میری ان کتابوں کو پڑھ کر اپنے forefathers کے بارے بھی اس تجسس کا مظاہرہ کرے یا رومانس کا شکار ہو جیسے آج پارو اور نعیم ہوتے ہیں۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ کتابیں بھی ہماری نسلوں کو ان کے ماضی کے رشتوں سے اس طرح جوڑ سکتی ہیں۔ کیا پتہ کسی دن کسی زمانے میں کوئی ایک بچہ کسی پرانی الماری میں وقت کی قید میں سے "گمنام گائوں کا آخری مزار" نکال کر باپ سے پوچھ رہا ہو بابا یہ کون تھے۔۔ ہمارے کیا لگتے تھے۔ اس کتاب کے یہ سب کردار کس گائوں اور کس زمانے کے ہیں۔ اب یہ سب کہاں ہیں۔۔ کہاں ہے وہ گھر وہ لوگ اور وہ سب کردار۔ مجھے ان سب سے ملنا ہے۔
شاید سیاہ فام امریکن ناول نگار Alex Haley الیکس ہیلے نے کسی لحمے انہی جذبات میں ڈوب کر ہی Roots جیسا بڑا ناول لکھا تھا۔