Sabar Gul
صبر گُل
صبر گُل میری بائیں جانب آ کر بیٹھا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے تہہ دل سے سلام کیا اور گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ عمرِ عزیز تقریباً نوے سال کی ہوگی، لیکن اس کے چہرے کی شگفتگی اور لہجے کی توانائی دیکھ کر عمر کا اندازہ لگانا محال تھا۔ وہ اپنی جوانی کے دنوں کی باتیں کرنے لگا، اکہتر کی جنگ، شکست اور اس کے بعد انڈیا کی قید کی داستانیں۔ میں چونک کر اس کی باتوں میں محو ہوگیا، کیونکہ یہ کہانی کسی عام انسان کی نہیں تھی، بلکہ ایک ایسے بزرگ کی تھی جو نہ صرف جنگ کے کٹھن مراحل سے گزرا تھا، بلکہ قید کے کربناک لمحوں سے بھی گزر چکا تھا۔
جولائی کی دھوپ دھیرے دھیرے مدھم پڑ چکی تھی، لیکن صبر گُل کے الفاظ جیسے وقت کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے ماضی کی گلیوں میں لے جا رہے تھے۔ میں نے آج تک 1971 کی جنگ کے قیدیوں کے بارے میں جو کچھ پڑھا یا سنا تھا، اس میں ہمیشہ انڈین جیلوں کی بے رحم سختیوں اور ظلم و ستم کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ ہر کہانی ایک دردناک نوحہ بن کر دل پر ایک بھاری بوجھ ڈال دیتی تھی۔ لیکن صبر گُل کی باتیں ان سب سے منفرد تھیں۔ اس کے لہجے میں نہ کوئی شکایت تھی، نہ غصہ، بلکہ ایک گہری شستگی اور مہذب انداز تھا جو سننے والے کو محض حیرت میں نہیں، بلکہ مسرت میں بھی مبتلا کر دیتا تھا۔
"ہمیں قید کیا گیا، لیکن انڈین سپاہیوں نے کبھی ہماری عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ ہم دشمن کے قیدی تھے، لیکن ان کا سلوک ہمارے ساتھ انسانی جذبات کی گہرائیوں سے ہم آہنگ تھا۔ کھانے پینے کا انتظام مناسب تھا، ہمیں عزت دی جاتی تھی اور ان کے سپاہی اکثر ہم سے بات چیت کرتے تھے"۔
میں نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔ "لیکن صبر گُل، ان کہانیوں کا کیا کریں جو ہم نے سنی ہیں؟ سختیاں، بھوک اور مار پیٹ؟"
صبر گُل مسکرا دیا۔ "بیٹا، قید قید ہی ہوتی ہے، اپنی آزادی کا چھن جانا سب سے بڑی سزا ہے۔ لیکن جہاں تک انڈین فوجیوں کا تعلق ہے، وہ ہمیں دشمن سمجھ کر قید تو کیے تھے، مگر میرے تجربے میں ان سے کبھی کسی ظلم یا تشدد کا سامنا نہیں ہوا۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ قیدیوں کے تجربات کبھی یکساں نہیں ہوتے۔ کچھ کے لیے قید ایک مسلسل اذیت کا شکار رہی اور کچھ کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ خود کو بہتر طور پر سمجھ سکیں"۔
یہ سن کر میں گہرے غور و فکر میں ڈوب گیا۔ صبر گُل کے الفاظ نے میرے ذہن میں بے شمار سوالات کے دروازے کھول دیے۔ کیا ہم ہمیشہ ہر کہانی کو ایک ہی رنگ میں دیکھتے ہیں؟ کیا ہمارے تعصبات کبھی کسی کہانی کو مروجہ زاویے سے ہٹ کر دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ یا پھر یہ ممکن ہے کہ صبر گُل جیسے افراد ان لمحوں میں بھی روشنی کی کرن تلاش کر لیں، جہاں دوسرے لوگ صرف سیاہی کی گہرائی میں غرق رہ جاتے ہیں؟
"ہم نے وہاں جو کھویا، جو پایا، وہ سب اللہ کی مرضی تھی"، صبر گُل نے بات جاری رکھی۔ "لیکن میں نے وہاں انسانیت کے کچھ اعلیٰ ترین سبق ضرور سیکھے۔ دشمنی اپنی جگہ، مگر انڈین سپاہیوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے میری عزت کی، میری بات سنی اور حتیٰ کہ میرے لیے دعائیں بھی کیں۔ یہ سب باتیں آج تک میرے دل کی گہرائیوں میں محفوظ ہیں"۔
یہ سن کر مجھے احساس ہوا کہ شاید یہی زندگی کا سب سے بڑا سبق ہے: ہر سخت لمحے میں امید اور انسانیت کو تلاش کرنا۔ صبر گُل کی کہانی نے مجھے سکھایا کہ صبر، حوصلہ اور مثبت سوچ وہ خزانہ ہیں جو انسان کو کسی بھی قید سے آزاد کر سکتے ہیں۔
صبر گُل کو سننے کے بعد میں دیر تک سوچتا رہا۔ یہ صرف ایک کہانی نہیں تھی، بلکہ ایک پیغام بھی تھی کہ جنگیں قوموں کو توڑ سکتی ہیں، مگر انسانیت کی عظمت کو کبھی بھی مکمل طور پر فنا نہیں کر سکتیں۔ یہ کہانی اس بات کی گواہی تھی کہ صبر، حوصلہ اور امید انسان کو ہر قید سے آزاد کر سکتے ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا، "حج پر اکیلے کیوں آئے ہو؟ اپنی بیگم کو ساتھ لے کر کیوں نہیں آئے؟"
اس نے شکستگی سے کہا، "کوشش کی تھی، مگر مالی حالات نے ساتھ نہیں دیا۔ پھر اس نے خود ہی کہا، تم جاؤ، حج کرو، میں پھر کر لوں گی"۔
میں نے اس کی مٹھی میں پچاس سعودی ریال دئیے اور کہا، "اپنی بیگم کے لیے تحفہ لے کر جاؤ"۔ اس نے خوش ہو کر ریال وصول کیے اور کہا، "یقیناً، لے کر جاؤں گا"۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور رخصت ہوا، کیونکہ مسجد نبوی کے باہر گیٹ پر میری بیگم ہمیشہ ہر نماز کے بعد میرا انتظار کرتی تھی اور میری کوشش ہمیشہ یہی ہوتی کہ جلدی پہنچوں تاکہ اسے انتظار کی زحمت نہ ہو۔
اگلے دن میں نے صبر گُل کو بہت تلاش کیا، لیکن اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حج مکمل کرکے اور بیگم کے لیے تحفہ لے کر ہنگو پہنچ چکا ہوگا۔ اللہ اسے خوش رکھے۔ اس نے مجھے زندگی کے چند بیش قیمت لمحے عطا کیے۔ یہ اس کی طرف سے میرے لیے ایک بیش بہا تحفہ تھا۔ صبر گُل سدا خوش رہو اور ہمیشہ اسی طرح مثبت اور خوشگوار رہو۔ تم انسانیت کا عظیم سرمایہ ہو۔