Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Zara Sochen

Zara Sochen

زرا سو چیں

اعظم سواتی کا دلخراش واقعہ سنا نے سے پہلے قومِ ثمود کا بتاتی چلوں جو سن کر آپ خود فیصلہ کریں کہ اس دور اور اڑھائی ہزار سال پہلے کے دور میں کیا فرق ہے؟ حضرت صالح کا دور آج سے اڑھائی ہزار ق۔ م سے لے کر (1400)ق۔ م تک ہے۔ حضرت صالح قوم ثمود پر مبعوث ہوئے اور اس کا تعلق براہِ راست ہمارے دور جسے دورِ اقتصادیات age of economics سے ہے۔

اس میں قرآن کے معاشی نظام کا اساسی نقطہ آ جاتا ہے۔ یہ قوم عرب کے شمال مغربی حصہ پر حکمران تھی جسے وادی قریٰ کہتے تھے۔ حجران کا دارالحکومت تھا۔ جو حجاز سے شام کی طرف جاتا ہے۔ وادی قریٰ کے گردو پیش کا میدان سرسبز و شاداب ہے لیکن آتش فشاں مادہ سے لبریز۔ قرآن نے اس قوم کو عاد کا جانشین بتا یا ہے۔ یہ بھی قومِ عاد کی طرح میدانوں میں محلات تعمیر کرتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں مکا نات بناتے جو فن سنگ تراش کے نمونے تھے۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس قوم کے دار السلطنت میں نو بڑے منتخب سردار تھے جن کے زمے معاشرے کا نظم و نسق قائم رکھنا تھا لیکن وہی فساد کی جڑ تھے جو ملک میں ناہمواری پیدا کرتے تھے۔ قوم کو کبھی اصلاح کی طرف نہیں آنے دیتے تھے ان کا سرغنہ ان سب سے بڑھ کر شقی و بد بخت تھا۔ جب رزق کی تقسیم قوانینِ خداوندی کے مطابق نہیں ہوتی اور انسانی معاشرہ میں نا ہمواریاں پیدا ہو جاتی ہیں، اسی کو فساد فی الارض کہا جاتا ہے۔

قومِ ثمود کے زمانے میں اس قسم کی ناہمواریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ حضرت صالح کے زما نے میں چراگاہیں اپنے مویشیوں کے لئے مخصوص کرلیتے تھے اور کمزوروں کے جانور بھو کے پیاسے مر جا تے تھے۔ حضرت صالح کا پیغام یہ تھا کہ یہ چشمے اور چرا گاہیں ربویتِ عامہ کے لئے خدا کی طرف سے بلامعاوضہ ملتی ہے اس لئے انہیں تمام انسانوں کے لئے کھلا رہنا چاہیے۔

اس کے جواب میں وہ کہتے کہ کمی کمینوں کے مویشی ہمارے مویشیوں کے برابر ہو سکتے ہیں؟ حضرت صالح نے انھیں سمجھانے کے لئے علامتی طور پر کہا کہ یہ اونٹنی ہے یہ کسی کی ملکیت نہیں یہ اونٹنی خدا کی اونٹنی ہے اور یہ زمین خدا کی زمین، میں اس اونٹنی کو آزاد چھوڑتا ہوں تا کہ یہ اونٹنی بھی اور اس کے ساتھ سب مویشی بھی اپنی اپنی باری پر پانی پی لیں۔ انھوں نے اونٹنی کو ہلاک کر دیا۔

خدا کی اونٹنی اور خدا کی زمین، بس یہ ہے خدا کے معاشی نظام کا نقطہّ ماسکہ اللہ کی ذمین اللہ کے بندوں کے لئے آج سے اڑھائی ہزار سال قبل اور آج کے دور میں کیا فرق ہے؟

اعظم خان سواتی عمران خان کے دور میں وزیر بنے، صدر بش کے لئے کمپین چلائی، اربوں، کھربوں کس طرح کماِئے۔ اسلام آباد میں اس کا محل اور فارم ہاوس ہے۔ باجوڑ کے ایک غریب خاندان (جس کا سر براہ نیاز محمد) کی گائے ان کے فارم ہاوس میں داخل ہوگئی، گھر کے سربراہ، اس کے بیٹے، اس کی بیگم کو تھانے میں بند کر دیا گیا، باقی رہ جانے والے معصوم بچوں کو گاؤں میں بھی کسی نے کھانا نہیں پوچھا طاقتوروں کے خوف سے۔

گل ظفر، باجوڑ کا ایم این اے اور سینٹر فدا محمد سب مل کر ان کو ڈراتے دھمکا تے رہے، گائے کو مار دیا گیا ان کا گھر بھی مسمار کر دیا گیا معاملہ میڈیا تک گیا پھر کورٹ پہنچا اور اس وقت کے جسٹس ثاقب نثار جس نے"ڈیم بناؤ ملک بچاؤ "مہم میں ڈھیر سارا پیسہ سمیٹا، یہ ہے ان کا کردار۔ اس بندے سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ نہ آسمان پھٹا نہ زمین۔ کچھ بھی نہ ہوا، حق اور باطل کا تصادم ازل سے چلا آرہا ہے اور ابد تک باقی رہے گا۔ بقول اقبال

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چرا غِ مصطویٰ سے شرارِ بو لہبی

کتنی مماثلت ہے آج کے دور اور اڑھائی ہزار سال پہلے کے دور میں لیکن جو حکمران آنکھیں بند کیے رہتے ہیں ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟ آج 27 رمضان میں جتنی مرضی دعائیں مانگ لیں جوآہیں غریبوں کے دلوں سے نکلتی ہیں وہ سیدھی عرش تک پہنچتی ہیں، شاید یہی بد دعائیں خان صاحب کی حکومت کو لے ڈوبیں۔

زرا سو چیں! دعائیں مانگنے سے پہلے سوچیں ضرور! کہ

دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

ذرا سو چیں!

Check Also

Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye

By Ilyas Kabeer