Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Aalim Kon Hai?

Aalim Kon Hai?

عالم کون ہیں؟

پاکستان میں لاتعداد مدارس موجود ہیں اور ان مدارس سے لاکھوں طلباء تعلیم حاصل کرکے نکلتے ہیں۔ میں بچوں کو سکول سے لینے جا رہی تھی تو راستہ میں بھی ایک شاندار مسجد میں طلباء بھی موجود تھے جو سفید لباس میں ملبوس تھے جو اس مدرسے سے دین کا علم حاصل کر رہے ہیں۔ ہم لاکھوں طالب علم ہر سال نکالتے ہیں لیکن بہت زیادہ افسوس اس بات پر کہ ان کو "علم" کا ایک لفظ بھی معلوم نہیں۔ اسی لئے تو ہم صرف ایک کروڑ 57 لاکھ مسلمان صرف تعداد کے لحاظ سے ہیں۔ ان میں مومن کوئی نہیں ہے، اس وقت میری حالت بھی اقبال کی طرح ہے جب انہوں نے مدرسوں کا دورہ کیا اور بہت افسوس کا اظہار زبانی بھی اور اپنے شعروں میں بھی کیا۔

قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟

اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام؟

عمران خان نے "القادر" یونیورسٹی قائم کی۔ میں اس وقت سیاسی مقاصد کا ذکر ہرگز نہیں کرونگی کیونکہ خان صاحب کا اپنا کہنا ہے کہ اس یونیورسٹی میں روحانیت کی تعلیم دی جائے گی جو کہ سائنس سے بھی بہت اونچی چیز ہے، یہ روحانیت ہے super science ہے، اسی لئے تو القادر کے لئے انگلستان سے امداد آئی تھی۔ اقبال اس زمانے میں کیا کہہ گئے ہیں۔

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اِسے

پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اِسے

تحقیق کسے کہتے ہیں اور علماء کون ہوتے ہیں اس سلسلے میں مجھے ڈاکٹر مورس بکائے Maurice buccille کی کتاب "The bible, The quran and science کا حوالہ دینا ہے یہ بتانے کے لئے کہ عالم آخر کسے کہتے ہیں؟ مورس بکائے نے اپنی تحقیق کا آغاز بائبل سے کیا تھا کیونکہ وہ خود عیسائی تھا۔ اس نے بائبل کا آزادانہ مطالعہ کیا اور اس کے اندر جو خارجی کائنات اور افلاکیات سے متعلق جو کچھ آیا اس کے مطالعہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتا۔

اسلام کے متعلق اور مسلمانوں کا دعویٰ قرآن کے متعلق کہ یہ الہامی کتاب ہے اس نے قرآن کو لیا آغاز ہی میں وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ترجموں سے بات نہیں بن سکتی کیونکہ تراجم اکثر جگہوں پر ترجمہ کرنے والوں کے خیالات ہیں۔ پھر جدید عربی سیکھنی چاہیے لیکن جلد ہی محسوس کیا کہ یہ جدید عربی قرآن کے زمانے میں نہی تھی پھر وہ خود عرب گیا اور اس وقت اس نے شاہ فیصل سے بھی ملاقات کی پھر اسے معلوم ہوا کہ صحرا نشین بدوؤں کی زبان آج بھی وہی ہے جس زمانے میں قرآن نازل ہوا۔ اس نے اپنی زندگی کے تیس برس ان بدوؤں کے ساتھ گزارے۔ یہ فرض ہم مسلمانوں کا ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟

سب سے پہلے اس نے تحقیق کی کہ یہی قرآن ہے جو رسول ﷺ کو دیا گیا تھا۔ اس نے قرآن میں کائنات سے متعلق تمام آیات اکٹھی کیں، اس میں فلکیات کے متعلق آیات بھی شامل تھیں۔

یہ کتاب بہت ضخیم ہے میں اس وقت صرف ایک آیت کا حوالہ دیتی ہوں جو ڈاکٹر مورس بکائے نے دیا اس نے یہ آیت لی۔

سُبُعُ للہ مُا فیِ السمٰوٰتِ وُ الارضِ۔

ہم نے لفظ سبع کا ترجمہ کیا کہ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور ہم تسبیح کے معنی تسبح کرنے کے لیتے ہیں بہت زیادہ اونچے اگر کوئی گیا تو اس نے اس کا مطلب حرکت لیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کا لفظی مطلب حرکت میں رہنا ہے۔ عرب تیرنے کے لئے بھی اس لفظ کا استعمال کرتے تھے۔ ڈاکٹر مورس کی تحقیق صرف اس پر ختم نہیں ہوتی وہ تحقیق کرتا ہے کہ عربی زبان میں سینکڑوں لفظ حرکت کے لئے موجود ہیں تو قرآن نے خاص طور پر "سبح" کا انتخاب کیوں کیا۔ سبحان اللہ!

اس پر وہ لکھتا ہے۔

The Arabic word refering to a movement with self propelled motion is the verb "sabaha" (yasbahuna in the text of two verses).

All the senses of the verb imply a movement that is associated with a motion that comes from the body in question (page no. 161)

وہ کہتا ہے کہ ایک تو حرکت وہ ہوتی ہے کہ باہر سے کسی کو move (متحرک) کیا جائے، جیسے ہمارے ہاں کے انجنوں کی حرکت ہوتی ہے، باہر کی قوت ان کو حرکت movement دیتی ہے ایک وہ حرکت ہے جو moved body ہے یعنی اس کے اندر کی توانائی ہے اس کی مدد سے وہ خود متحرک ہوتی ہے۔

عربوں کے ہاں سبح کا لفظ تیراک کے لئے بولا جاتا ہے "تیرنے والا" کسی باہر کی خارجی طاقت کے ذریعے سے حرکت نہیں کرتا بلکے اس کے اپنے اندر کی توانائی اس کو متحرک کرتی ہے اس کو حرکت میں رکھتی ہے، اسی طرح شمس و قمر اور جتنے بھی آسمانی کرے ہیں، ان کے اندر اتنی قوت اور توانائی ہے جس کی بناء پر یہ خود گھوم رہی ہیں۔ آج سائنس کے انکشافات یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اپنی اندرونی توانائی کے زور پر محوِ گردش ہیں۔ اس پر وہ لکھتا ہے

It's appear therefore that a verbal nuance in the quran refers to the sun and moon's all motion. these motion of the two celestial bodies are confirmed by the data of modern science (p. 162)

کہا کہ یہ چیز نظر آئی جو قرآن نے "سبح" کا کہا کہ یہ اپنی اندرونی طاقت کے زور پر محوِ گردش ہیں اور آج سائنس کے انکشافات نے اس چیز کو ثابت کر دیا کہ بیرونی کوئی قوت نہیں ہے جو ان کو محوِ گردش رکھ رہی ہے، یہ ان کے اپنے اندر کی چیز ہے اور کہا کہ قرآن کے اس لفظ کو جو لطافت اور گہرائی ہے وہ غور کے قابل ہے کہا کہ

It is inconceivable that a man living in the seventh century A.p. However knowledgeable be might has been in his day (and this were certainly not true in Muhammand's case) could have imagine. them(p162)

مقامِ نبوت کے متعلق بوکائے کہتا ہے کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ایک شخص جو ساتویں صدی عیسوی میں ہو اور وہ پڑھا لکھا بھی نہ ہو، اُس زمانے کا تو بڑے سے بڑا عالم بھی اس کو conceive نہیں کر سکتا تھا۔ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کرے اس طرح سے محوِ گردش ہیں کہ محمدؐ یہ چیز conceive کر سکتے۔ یہ کسی انسان کے تصور میں نہیں آسکتا تھا، اس لئے یہ انسان کا کلام نہیں ہو سکتا تھا۔

یہ صرف ایک لفظ کی تحقیق ہے اس شخص کی جسے ہم آرام سے کافر کہہ دیتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس تحقیق کے بعد جو اس نے پورے قرآن پر کی وہ کن بلندیوں پر پہنچ چکا ہوگا اور حقیقت اس پر منکشف ہو چکی تھی، لیکن اس نے ہم مسلمانوں کی جو حالت دیکھی ہوگی جو بہت آسانی سے ہر دوسرے آدمی پر کفر کا فتویٰ داغ دیتے ہیں، اس شخص کی تحقیق بول بول کر کہہ رہی ہے کہ

پا سباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

اب آپ سب اپنے اردگرد کے "علماء" کو دیکھیں کہ کیا "علماء" کا لفظ ان کے لئے بولا جا سکتا ہے؟

Check Also

Babo

By Sanober Nazir